شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے اس ماہ کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کو عام پاکستانیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے جس کے بعد اختتامِ ہفتہ پر اس علاقے کے دو دورے خبروں میں رہے۔
ایک جانب تو پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ، میجر جنرل آصف غفور اپنے ساتھ کچھ صحافیوں کو علاقے میں لے گئے تو دوسری جانب چند خواتین سماجی و سیاسی کارکنوں کے ایک وفد نے بھی شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔
صحافیوں کے اس دورے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کافی چرچا رہا اور وہاں کی تصاویر جگہ جگہ شیئر کی گئیں جس سے بظاہر ایسا تاثر ملا کہ عرصہ دراز سے جنگ کا شکار شمالی وزیرستان اب واپس بہتری کی راہ پر گامزن ہے اور حالات بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں۔
خیسور کے واقعے کے بارے میں مزید پڑھیے
شمالی وزیرستان: وائرل ویڈیو کی گونج پارلیمان میں
تاہم عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشری گوہر سمیت پانچ خواتین پر مشتمل گروپ کے دورے کا مقصد خیسور کے رہائشی حیات خان کی والدہ سے ملاقات کرنا تھا جنھیں مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکاروں نے ہراساں کیا تھا۔
حیات خان نے سوشل میڈیا پر چند روز قبل ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اُن کے والد اور بڑے بھائی کو چار ماہ قبل مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے اور انھوں نے الزام لگایا کہ اہلکار ان کی والدہ کے ساتھ بدتمیزی اور انھیں ہراساں کرتے ہیں۔
پانچ خواتین کے اس گروپ میں شامل سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے بھی اسی واقعے کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں واقعے میں ملوث اہلکاروں کی گرفتاری اور اُن کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
فوج کے ساتھ شمالی وزیرستان جانے والے گروپ میں شامل صحافی عامر ضیا سے جب بی بی سی نے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ اس دورے کا اصل مقصد شمالی وزیرستان میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی کارکردگی کے بارے میں بتانا تھا۔
‘یہ میرا پہلا دورہ تھا شمالی وزیرستان کا اور ہم نے تو صرف سنا تھا کہ یہاں کہ حالات جنگ کے باعث بہت مخدوش ہیں لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے اور امن وامان کے خدشات میں بہت کمی آئی ہے۔’
عامر ضیا کے مطابق گو کہ یہ بہت قلیل مدتی دورہ تھا جہاں وہ صرف چند گھنٹے ہی گذار سکے لیکن مقامی لوگوں سے جتنی بات ہوئی اس سے یہ معلوم ہوا کہ اب لوگوں کو امن و امان کے مسائل نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائیں، تعلیم کے مواقع دیے جائیں اور سماجی بہبود کے لیے کام کیا جائے۔
‘قبائلی علاقوں کے انضمام کا عمل کافی آہستہ ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگ اب امن و امان کے بجائے معاش کے بارے میں مطالبات کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب وہاں لوگوں میں امید بڑھی ہے تو شاید ان کی توقعات ریاستی مشینری کی صلاحیت سے تجاوز کر جاتی ہے اور انھیں بعض اوقات مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’@HamidMirPAK کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہ
What happened in Khisore?@OfficialDGISPR claimed that a local Jirga rejected the claim made by some people that women were dishonoured in Khisore4,1479:20 PM – 28 جنوری، 20191,847 people are talking about thisTwitter Ads info and privacy
@HamidMirPAK کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
جیو ٹی وی سے منسلک صحافی حامد میر بھی اس دورے کا حصہ تھے اور انھوں نے اس دورے کے دوران فوج کے ترجمان سے جب خیسور کے معاملے پر سوال اٹھایا تو میجر جنرل آصف غفور نے جواب میں کہا کہ اس معاملے کو سوشل میڈیا پر خاص منصوبے کے تحت پھیلایا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مقامی طور پر ہونے والے جرگے نے اس واقعے کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
‘آج سے پانچ سال پہلے جو بات ہوئی ہو تو اسے آج کا بنا کر نہیں پیش کرنا چاہیے۔ فوج میں ایک سسٹم ہے۔ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور غلطی کو چھوڑا نہیں جاتا۔ لیکن یہاں پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ یہاں کی ثقافت کے خلاف ہے اور جرگے میں بھی اس بات کو غلط قرار دیا گیا ہے کہ یہ تو یہاں ثقافت ہی نہیں ہے۔’
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اگر فوج کو نشانہ بنانا ہے تو اس میں ‘ماؤں بہنوں کو شامل نہ کریں۔’@BushraGohar کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہ
Went to #NorthWaziristan to show solidarity with the brave women of #Khaisoor. #RedSalute to #HayatKhan’s mother for standing up against State’s oppression. For resisting State’s proxies/Malik or #Samsera’s pressures.Isn’t an isolated incident.Must be independently investigated.66411:31 AM – 28 جنوری، 2019309 people are talking about thisTwitter Ads info and privacy
@BushraGohar کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
بشری گوہر نے خیسور میں ہونے والے واقعے اور اپنے دورے کے حوالے سے کہا کہ وہ وزیرستان اس لیے گئی تھیں تاکہ وہ متاثرہ خاتون سے یکجہتی کر سکیں اور ان کی ہمت کو سلام پیش کریں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات کی جانی چاہیے۔
‘خیسور کی خواتین کے ساتھ بہت ظلم و ستم ہوا ہے اور اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حیات خان کی والدہ نے بہت ہمت دکھائی ہے ریاستی مظالم کے خلاف۔’
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا شمالی وزیرستان کا پہلا دورہ تھا اور وہاں چند مرکزی شاہراہوں پر تو کام ہوا لیکن علاقے میں جانے والی دیگر سڑکیں بشمول خیسور جانے والے سڑک کی حالت انتہائی خراب تھی۔
بشریٰ گوہر کے مطابق اس سفر کے دوران انھیں جگہ جگہ جنگ کی تباہ کاریوں کے مناظر دیکھنے کو ملے تاہم کچھ مقامات پر مقامی لوگوں نے اپنی دکانوں اور مکانات کی تعمیر شروع کر دی تھی۔
سیاسی رہنما کے مطابق ’ہم نے جو بھی پختہ عمارتیں دیکھیں وہ میر علی میں تھیں اور فوجیوں کے قبضے میں تھیں۔ ایک سرکاری سکول دیکھا جو پکا تھا اور اسے آرمی پبلک سکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس کی فیس اب ان کی استطاعت سے باہر ہے‘۔@nidkirm کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہ
It is not the media’s job to be positive or negative. It’s their job to expose the truth even if that truth is critical of the powers-that-be. #BoycottNegativeMedia2078:32 PM – 28 جنوری، 2019Twitter Ads info and privacy83 people are talking about this
@nidkirm کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
بشری گوہر کے ساتھ خیسور جانے والی انسانی حقوق کی کارکن عصمت شاہجہاں نے بھی ٹویٹ میں فوج کے ہمراہ جانے والے گروپ کے حوالے سے کہا کہ ‘ایسے دورے صرف پروپیگینڈا کرنے کے لیے کام آتے ہیں اور صحافی صرف فوج کے بیانیے کی تائید کرتے ہیں۔’
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی بننے والے محسن داوڑ نے بھی فوجی ترجمان کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ ‘کیا حیات وزیر اور ان کی والدہ کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ یہ محض زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے لیکن اس قسم کا رعونت والا رویہ اب نہیں چلے گا۔’
ان دونوں دوروں کے بعد سوشل میڈیا پر #BoycottNegativeMedia کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ چلنے لگا اور اس پر محقق اور لمز یونیورسٹی کی پروفیسر ندا کرمانی نے ٹویٹ پر تبصرہ کیا کہ ‘میڈیا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ منفی یا مثبت تصویر پیش کریں‘۔@Zohrakhan1222 کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہتصویر ٹوئٹر پر دیکھیں
Zohra@Zohrakhan1222Replying to @HamidMirPAK
اگر وزیرستان میں امن، خوشحالی اور تعمیر و ترقی آگئی ہے تو فوج کی نگرانی میں گائیڈڈ ٹور کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ کسی بھی صحافی کو اپنے طور پر آزادانہ دورہ کرنے اور رپورٹنگ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہے؟ @asmashirazi @HamidMirPAK #BoycottNegativeMedia811:57 AM – 29 جنوری، 2019See Zohra’s other TweetsTwitter Ads info and privacy
@Zohrakhan1222 کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کا کام ہے سچائی کو پیش کرنا اور مقتدر افراد اور اداروں پر سچ کی بنیاد پر تنقید کرنا۔’
اسی ہیش ٹیگ پر ایک اور صارف زہرہ نے تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’اگر وزیرستان میں امن، خوشحالی اور تعمیر و ترقی آگئی ہے تو فوج کی نگرانی میں گائیڈڈ ٹور کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ کسی بھی صحافی کو اپنے طور پر آزادانہ دورہ کرنے اور رپورٹنگ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہے؟‘