آزادی مارچ کا پرامن حل نکالنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے شرکاء 6 روز سے اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور حکومت کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔
گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد آج دن میں بھی دونوں کمیٹیوں کی ملاقات ہوئی۔
مذاکرات میں حکومتی کمیٹی کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی، وفاقی وزیر شفقت محمود، نور الحق قادری اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر شریک تھے۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما و خیبرپختونخوا اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی، مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور امیر مقام، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نیئربخاری، فرحت اللہ بابر، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار ، جمعیت علمائے پاکستان کے اویس نورانی اور شفیق پسروری شامل ہیں۔
مذاکرات میں دونوں جانب سے سفارشات پیش کی گئی تاہم کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے استعفے سمیت مختلف معاملات پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹیوں نے دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بھی پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی آئی تھی اور ہم نے وزیراعظم کے استعفے اور نئے الیکشن کے مطالبات سامنے رکھے تھے، یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ الیکشن میں فوج کا عمل دخل نہ ہو اور ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ درمیانی راستہ نکلے۔
اس موقع پر حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ابھی وہی پوزیشن ہے، ہماری بات چیت چل رہی ہے، ایسا راستہ دیکھ رہےہیں جس سے اپوزیشن کی بھی عزت رہے اور حکومت کا بھی خیال رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مطالبات میں کئی چیزوں پر اتفاق ہوچکا ہے، باقی معاملات کیلئے ہم اپنی قیادت سے اور یہ اپنی قیادت سےبات کریں گے، ہم نے بہت اچھے ماحول میں بات کی اور کوشش کریں گے کہ ڈیڈلاک دور ہوجائے۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ دونوں طرف سے کچھ باتیں ہوئیں جس میں سے کچھ چیزیں اچھی لگیں اور کچھ نہیں، معاہدہ ہوجائے گا تو پھر بتائیں گے کہ کس بات پر ہوا۔