پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ اگر تین دفعہ کا منتخب وزیراعظم سزا بھگت سکتا ہے تو پھر کوئی امر مانع نہیں، یہاں کوئی آسمان سے نہیں اترا اور سب کو جواب دینا پڑے گا اور اداروں کو ایک سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑے نظر آنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) ‘شیر جوان’ موومنٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘شیرجوان’ کے بارے میں پورے ملک سے انتہائی بہتر ردعمل آیا ہے۔
شیرجوان موومنٹ کے حوالے سے مریم نواز نے کہا کہ ‘یہ شیردل جوان تحریک بظاہر نئی اور نام بھی نیا ہے لیکن اس تحریک کے مقاصد وہی ہیں جس کی بنیاد 83 سال قبل 1937 میں آل انڈیا مسلم فیڈریشن کے نام سے رکھی گئی تھی اور اس کے سرپرست اعلیٰ قائد اعظم محمد علی جناح خود تھے اور اس تنظیم نے تحریک پاکستان میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘قائداعظم نے 1937 میں کلکتہ میں مسلمان نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نئی نسل کے نوجوانوں! آپ میں سے ہر ایک کو علامہ اقبال اور قائد اعظم بننا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ کے محفوظ ہاتھوں میں رہے گا’۔
مریم نواز نے کہا کہ ‘کہتے ہیں کہ اس میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا اور شیر جوان صرف لڑکوں تک محدود ہے لیکن ایسا نہیں ہے ہم سب اس تحریک کا حصہ ہیں تمام شیرنیاں اسی جذبے سے لڑیں گی’۔
انہوں نے کہا کہ ’72 سال قبل پاکستان جن اغراض و مقاصد کے لیے بنا تھا ہمیں آج بھی اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نظر نہیں آیا، شیر جوان ایک تحریک ہے، شیر جوان تحریک جوانوں کو سیاسی شعور دینے کی تحریک ہے، یہ بچوں اور بچیوں کے حقوق کا احساس اور شعور بیدار کرنے کی تحریک ہے’۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ ‘یہ پاکستان کے نوجوانوں کو پاکستان کا مقصد یاد دلانے کی تحریک ہے، نوجوانوں کو اقبال کا شاہین، مادر ملت کا پیغام سمجھانے، آئین کا مطلب سمجھانے، پاکستان کے نوجوانوں کو جمہوری نظام پر اعتماد دلانے کی تحریک ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے نوجوانوں کو ہائبرڈ نظام جس کو آج کل ہائبرڈ حکومت کہتے ہیں، اس کے خطرات سمجھانے کی تحریک ہے، مستقبل کی قیادت تیار کرنے کی تحریک ہے، ڈگمگاتی اُمیدوں اور ٹوٹتے خوابوں کو جوڑنے اور سیمٹنے کی تحریک ہے’۔
نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جانتے ہو غلامی کتنی بڑی سزا ہے، غلامی وہ بلا ہے کہ جو انسانوں سے بات کرنے کی آزادی چھینتی ہے، یہ وہ زنجیر ہے جو آپ کو طاقت ور کے آگے جھکنے پر مجبور کرتی ہے، غلامی وہ بلا ہے کہ جو آپ کو خوف میں مبتلا کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جانے پر مجبور کرتی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘غلامی وہ پردہ ہے جو ہماری ذہنوں پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ ہمیں سچائی اور حق کا راستہ نظر نہ آئے، تاکہ ہم حق کو حق اور سچ کو سچ نہ کہہ سکیں، آپ اپنا حق نہ مانگ سکیں اور اپنے حقوق پر خاموش ہوجائیں، آپ کا حق آپ کو بھیک کی طرح دیا جائے اور اتنا دیا جائے جو طاقت ور کی مرضی ہو’۔
ان کا کہنا تھا کہ غلامی وہ بلا ہے جس میں اگر ‘کوئی اپنا حق مانگے، سوال کرے تو اس کو کالے پانی کی سزا سنائی جائے گی، کچھ دن پہلے پاکستان کا قابل فخر صوبہ، سوئی سے اربوں روپے کی گیس پورے پاکستان کو فراہم کی جاتی ہے اور اسی بلوچستان کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صرف 600 اسکالرشپس دیے تھے وہ بھی ان سے چھین لیے گئے اور آپ جیسے بچے گھروں سے دور سڑک پر رل رہے تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ بچے 12 دن تک سڑکوں پر پیدل مارچ کرتے رہے، اس حکومت میں سے کسی کو ان کا مسئلہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوئی، ان کی آنکھیں نیند پوری نہ ہونے سے لال تھیں اور بال گرد سے اٹے ہوئے تھے لیکن ان کی آواز سننے کوئی نہیں آیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر آپ کا حق بھی بھیک کی طرح دیا جائے گا اور آپ سے یہ سلوک ہوگا تو یہ چیز نہ نواز شریف کو منظور ہے اور نہ مریم نواز کو منظور ہے’۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘غلامی وہ ہوتی ہے جب سندھ میں آئی جی کو اغوا کیا جاتا ہے اور اس کو گھنٹوں حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور ان سے فون لے لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرو’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب وہ کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتا اور اجازت نہیں ہے تو بتادیا جاتا ہے کہ یہاں سے نہیں جاسکتے جب تک گرفتاری کے احکامات پر دستخط نہ کرو’۔
انہوں نے کہا کہ ‘غلامی وہ ہوتی ہے کہ یہ صبح 6 بجے میرے کمرے میں داخل ہوتے ہیں، کیا ریاست اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے یہ سلوک کرتی ہے اور اگر ہم نے اس پر آواز اٹھائی تو پھر پاکستان کے ہر گھر میں یہی ہوگا پھر بچانے والا کوئی نہیں ہوگا’۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘اس کے خلاف ہمیں آواز اٹھانی ہے، کیا پولیس کم تر فورس ہے، کیا پولیس کم تر انسان ہیں کیا پولیس کی وردی کم تر ہے، کیا پاکستان ہم نے اس لیے حاصل کیا تھا، پاکستان حاصل کرنے کے لیے اپنے مال اور جان کی قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں کی ان قربانیوں کو جو شکل دی گئی ہے اس کو آئین پاکستان کہتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے بہت لوگ کہتے ہیں جب آپ آئین کی بات کرتی ہیں تو بہت لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، آئین حقوق کی کتاب ہے، کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کی ہمیں سمجھ نہیں آئے، اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کیا ہوگا’۔
آئین پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کیا نہیں ہوگا اور کس کا کیا حق ہے، آئین کی کتاب میں لکھا ہے کہ کس نے کیا کام کرنا ہے اور آئین میں لکھا ہے کہ کس کا کیا کام نہیں ہے’ ۔
انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کے معمارو آئین کی کتاب پڑھو اور پھر دیکھو کہ نواز شریف کے مطالبات کیا ہیں، اگر نواز شریف کا ایک بھی مطالبہ آئین سے متصادم ہے تو نہ نواز شریف اور نہ مریم نواز کا ساتھ دو’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف آئین اور حلف کی پاسداری کی بات کر رہا ہے، نواز شریف عدلیہ کی آزادی کی بات کر رہا ہے، ہم نے وردی پر الزام نہیں لگانا یہ ہمارے فوجیوں کی وہ وردی ہے جو سیاچن میں ہماری حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں اور جب ان کو دفنایا جاتا ہے تو ان کی وردیاں خون آلود ہوتی ہیں، ہم نے پہنچاننا ہے کہ اس وردی کو داغدار کرنے والے دو یا تین کردار کون سے ہیں اور ہم ان کرداروں کو وردی کی آڑ نہیں لینے دیں گے’۔
مریم نواز نے کہا کہ ‘جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ! قوم کے نوجوان آپ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ کے پاس کھربوں کی جائیدادیں کہاں سے آئیں، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ نوکری پیشہ ہونے کے باوجود پوری دنیا میں پھیلی ہوئی جائیدادیں کیسے بنائیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر تین دفعہ کا وزیراعظم انتقام نما احتساب کے سامنے پیش ہوسکتا ہے تو پھر پاکستان میں کوئی مقدس گائے ہے، اگر مریم نواز اپنے والد کے ساتھ نیب کی 200 پیشیاں بھگت سکتی ہیں تو پھر کسی کو کیا امر مانع ہے، یہاں آسمان سے کوئی نہیں اترا سب کو جواب دینا پڑے گا’۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ ‘نواز شریف عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کی بات کر رہا ہے، میڈیا کو ایک چیز فیڈ کی جاتی ہے اور پھر پورے میڈیا کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہی رٹا رٹایا سبق آپ کے سامنے پڑھیں جو یہ سبق پڑھنے سے انکار کرے انہیں اٹھا کر نیب کی جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کہتا ہے کہ آئین کی سبز کتاب کو روندنے والوں کو سزا دو اور عبرت کا نشانہ بناؤ تاکہ ملک میں مشرف جیسے لوگ دوبارہ پیدا نہ ہوسکیں’۔
نوجوانوں سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کہتا ہے کہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو کٹہرے میں اور عوام کے سامنے کھڑا کرو تاکہ اس سے سوال پوچھیں کہ ہمارا ووٹ چوری کرنے کی جرات کس کو ہوئی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ووٹ کو عزت دو صرف ایک نعرہ نہیں ہے، جب ووٹ کو عزت ملتی ہے نوجوانوں کو اسکالر شپس ملتی ہیں، غریب طلبہ کی فیس کی ادائیگی کا ذمہ حکومت لیتی ہے، شہباز شریف کے دور میں پنجاب میں کالج اور جامعات بنیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ووٹ کو عزت ملتی ہے تو 22 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ زیرو پر آجاتی ہے، جب ووٹ کو عزت ملتی ہے تو گلی گلی، شہر شہر ہونے والے بم دھماکے ختم ہوجاتے ہیں اور ہر روز خود مختاری پر ہونے والے ڈرون حملے ختم ہوجاتے ہیں اور دشمن خود چل کر آپ کی سرزمین میں آتا ہے اور مینار پاکستان میں کھڑا ہو کر 72 برس سے انکار کرنے والے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرتا ہے’۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘جب ووٹ کو عزت ملتی ہے تو مہنگائی 45 سال کی کم ترین سطح پر آجاتی ہے، جی ڈی پی کی شرح 5.7 پر جاتی ہے اور 6 فیصد کے امکانات ہوتے ہیں، میٹرو بس اور اورنج لائن بنتی ہے اور پاکستان میں 60 ارب ڈالر کا سی پیک منصوبہ آتا ہے اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ سے نکل آتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ووٹ کو عزت نہیں ملتی تو تعلیم کا بجٹ آدھے سے کم، بیرون ملک تعلیم کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے اور فیسیں بڑھ جاتی ہیں، چینی، آٹا مہنگا اور صحت کی سہولیات بند ہوجاتی ہیں، مفت ادویہ کی فراہمی بلکہ ادویہ ہی بند ہوجاتی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج کل ہر گھر میں والدین سوچتے ہیں کہ بجلی، گیس کا بل دیں، بچوں کی فیسیں بھریں یا گھر کا خرچ چلائیں، جب ووٹ کو عزت نہیں ملتی ہے تو دہشت گردی پھر سے سر اٹھا لیتی ہے، ابھی پشاور میں مدرسے کے معصوم بچوں کے ساتھ دہشت گردی ہوئی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ووٹ کو عزت نہیں ملتی تو نالائقی پاکستان کو گھیر لیتی ہے، کاروبار اور روزگار بند ہوجاتا ہے، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، دوست ملک بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کشمیر بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے، ڈالر بے لگام ہوجاتا ہے اور اس نالائق حکومت نے 17 ہزار ارب روپے کا تاریخی قرضہ لیا اور نوجوانوں کا مستقبل گروی رکھ دیا’۔