پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) رہنما اور ڈٌپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کاروباری برادری کے معاملات پر مداخلت قومی احتساب بیورو (نیب) پر تنقید کرتے ہوئے ملک بھر کے چیمبرز سے کاروباری افراد کی مدد کرنے پر زور دیا ہے۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ نیب کا انڈر انوائسنگ کیسز تعلق کیا ہے اور نیب کے پاس یہ کیسے گئے اور کس نے بھیجے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تو صرف انڈر انوائسنگ کی بات ہورہی ہے، کتنے اور کاروباری افراد کے کیسز ہیں جو نیب بلاوجہ ٹیکس ریٹرنز اور ان کے زمینوں کے ٹرانزیکشنز چیک کر رہی ہے، کیا یہ نیب کا کام ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘نیب اس لیے نہیں بنایا گیا کہ کمرشل ٹرانزیکشنز، امپورٹ ایکسپورٹ اور صنعتوں کی سیلز ٹیکس چیک کردیں، پھر ایف بی آر کو بند کردیں کیونکہ اگر نیب نے ایف بی آر کا کام کرنا ہے تو پھر ان اداروں کی ضرورت نہیں ہے’۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ‘میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو صرف سرکاری سطح پر کرپشن تک محدود رہنا چاہیے، اس کے علاوہ اگر نیب کوئی اور سرگرمی کر رہا ہے تو اس کو روک دینا چاہیے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس میں ہماری پارلیمنٹ اور ہماری حکومت کی بھی غلطی ہے کیونکہ ہم ابھی تک اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے نہ کرسکے کہ ہم نیب قانون کو تبدیل اور صحیح کریں تاکہ لوگوں کا نشانہ بنانے کا عمل ختم ہو’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اس پلیٹ فارم سے درخواست کروں گا کہ نیب کے مقدمات سے جتنے بھی لوگ متاثر ہیں، وہ سرحد چیمبر سے رابطہ کریں اور سرحد چیمبر اس معاملے کو سینیٹ بھیج دینا چاہیے’۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ ‘میں تمام چیمبرز سے کہوں گا کہ اپنے اراکین کی مدد کے لیے کھڑے ہوں یہاں تک جو آپ کے رکن نہیں ہیں، ان کے لیے بھی کھڑے جو نیب سے متاثر ہوئے ہیں’۔
چیمبرز سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا کہ ‘ان کو آپ اپنے پلیٹ فارم سے ان کو جو بھی خدمات درکار ہیں فراہم کریں اور کیسز ہمیں بھیجیں، میرے پاس پہلے ہی پورے پاکستان سے سیکڑوں کیسز آچکے ہیں اورجیسے ہی سیشن بلایا جائے گا ہم کمیٹیوں میں اٹھائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ نیب کی سرگرمیوں کو جانچنے کے لیے سینیٹ کے اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع کرادی گئی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اپنا قدم لیا ہے اور کم ازکم کاروباری برادری اور عام شہری جس کا سرکاری عہدے سے تعلق نہیں رہا ہوں ان کے معاملات پر نیب کی مداخلت بالکل نہیں ہونی چاہیے’۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن نے سینیٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے اقدامات پر بحث کے لیے ریکوزیشن اور دو قرار دادیں بھی جمع کرادیں۔
ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا سمیت اپوزیشن اراکین نے آئین کے آرٹیکل 54(3) کے تحت سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن سینیٹ میں جمع کرادی تھی، جس میں ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کی چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کے خلاف تحریک استحقاق بھی ایجنڈے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ریکوزیشن میں بتایا گیا ہے کہ ایوان میں ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی جانب سے چیئرمین نیب، ڈی جی نیب، تفتیشی افسر، ایس ای سی پی لاہور کے کمپنی رجسٹریشن افسر کے رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف پیش کی گئی قرار داد پر بات کی جائے۔
یاد رہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال، ڈی جی نیب عرفان منگی اور تحقیقاتی افسر کو پارلیمنٹ میں طلب کرنے کے لیے 25 نومبر کو تحریک استحقاق جمع کرا دی تھی۔
نیب کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے کاروباری حصص منجمند کرنے کے معاملے پر نیب پر جانب داری الزام عائد کرتے ہوئے سلیم مانڈوی والا نے کہا تھا کہ چیئرمین نیب، ڈی جی نیب اور متعلقہ تحقیقاتی افسر کو پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا تھا کہ نیب قانون کے مطابق تحقیقات کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن مجھے بدنام کرنے اور ملزم لکھنے کا کوئی لائسنس نہیں ہے، کسی قسم کے ٹھوس ثبوتوں کے بغیر مجھے کیس میں ملزم لکھ کر میرے خلاف میڈیا پر ایک مہم شروع کی گئی۔