وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا کی ویکسین آنے میں وقت لگے گا اور کورونا وائرس کی تیسری لہر سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً ساڑھے 5 کروڑ معاوضے کے عوض روزگار حاصل کرنے کے لیے کام کرتے ہیں اور اس لیے گھر سے نکلتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت کورونا آیا اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ تر کاروباری سرگرمیوں پر بندشیں لگ گئیں اس کا اثر یہ پڑا کہ 2 کروڑ سے زائد لوگوں کا روزگار چھن گیا۔
انہوں نے کہا کہ 27 مارچ کو این سی او سی بنی تھی، 5 اپریل کو پورا آرگنائزیشن کا اسٹرکچر ہم نے بنا لیا تھا جس میں اہداف پر مبنی لاک ڈاؤن کی حکمت عملی بنائی گئی، ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام 10 اپریل کو شروع ہوگیا تھا اور 24 اپریل سے مکمل ٹی ٹی کیو آپریشن پاکستان میں شروع کردیا گیا تھا جس سے 12مئی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے لاک ڈاؤن کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ‘وی’ شکل کی بحالی ہوئی اور تقریباً تمام لوگ اکتوبر تک روزگار پر واپس آ چکے تھے اور نومبر، دسمبر میں تعمیرات کی سرگرمیوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، بڑی صنعتوں کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ آپ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کریں تو کروڑوں لوگ بیروزگار ہو گئے اور دنیا کے طاقتور اور امیر ترین ملکوں میں ہم نے دیکھا کہ کروڑوں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہی وجہ ہے کہ باراک اوباما کے چیف معاشی آفیسر نے کہا کہ اگر امریکا، پاکستان کی طرح کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوتا تو امریکا 10 کھرب کے نقصان سے بچ سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بے روزگار ہونے والے 2 کروڑ لوگوں میں سے 29 فیصد دیہاڑی دار افراد تھے جن کی نوکری اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اس دن وہ کام پر آتے ہیں تو ان کو پیسہ ملتا ہے، اس کے علاوہ جو خود کام کرتے ہیں مثلاً ٹھیلا لگاتے ہیں، چھوٹا کھوکھا چلاتے ہیں اور جن کا شمار غریب لوگوں میں ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد بھی 30 فیصد ہے جو اس دوران روزگار سے محروم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ دو تہائی سے زیادہ تو وہ لوگ متاثر ہوئے جو دیہاڑی دار ہیں، اس دن اگر ان کا کاروبار نہ ہو تو ان کو کچھ مل نہیں سکتا اور یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم بار بار اس بات کو دہراتے تھے کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ مکمل طور پر اس بات کو نظر انداز کر کے سب کچھ بند کردیں۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ بے روزگار ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق صنعت سے ہو گا، 20 فیصد تعمیرات کی صنعت سے منسلک تھے اور اگر ان دونوں کو جوڑ دیا جائے تو 46 فیصد بنتا ہے، یعنی ایک کروڑ افراد ان دو شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ جب ہم فیصلے کررہے تھے تو ہم نے سب سے پہلے صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے کو کھولا تھا اور سب سے زیادہ جہاں مشکل نظر آرہی تھی، ہم نے ان شعبوں کو کھولا۔
وزیر منصوبہ بندی نے ہر شعبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تعمیرات کے شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے 80 فیصد مزدوروں کا کاروبار بند ہو گیا تھا، اگر یہ تعمیرات کا شعبہ کھولنے کا فیصلہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا کیونکہ اس شعبے میں محنت کرنا والے ہر پانچ میں سے چار افراد اپنا روزگار کھو بیٹھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتوں میں 72 فیصد لوگ روزگار سے محروم ہو گئے تھے یعنی ہر چار میں سے تین بے روزگار ہو گئے، اسی طریقے سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملازمت کرنے والے 67 فیصد افراد کی ملازمت ختم ہو گئی تھی، ان شعبوں کو اس لیے کھولنا ضروری تھا۔