وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق فیصلہ نہ ہونے پر سرکاری ملازمین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سراپا احتجاج ہیں اور اس دوران ان کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی ہے جس کے بعد متعدد ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ روز کابینہ وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے پر نہیں پہنچ سکی تھی اور اس معاملے پر ملازمین کے نمائندوں اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے درمیان ہونے والی فالو اپ میٹنگ بھی غیر نتیجہ خیز رہی تھی۔
بعد ازاں سرکاری ملازمین نے آج ہڑتال اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حمایت سے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔تحریر جاری ہے
سرکاری ملازمین کے احتجاج کے باعث اسلام آباد سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم ہاؤس جانے والا راستہ بند کرتے ہوئے سیکیورٹی بھی بڑھادی گئی۔
سرکاری ملازمین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ سرکاری ملازمین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا جارہا ہے۔
سرکاری ملازمین کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا جارہا ہے جن میں شاہراہ دستور، سیکرٹریٹ بلاک ، کیبنیٹ بلاک شامل ہیں۔
سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد نیشنل پریس کلب کے باہر اور ڈی چوک پر بھی جمع ہے۔
ڈپٹی کشمیر اسلام عیسیٰ حمزہ نے خبردار کیا ہے کہ مظاہرین اگر آگ لگانے کی کوشش کریں گے، گاڑیاں توڑیں گے تو ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑکیں بند کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بھی حکم موجود ہے، ہم نے مظاہرین کو احتجاج کے لیے جگہ دینے کا بھی کہا ہے۔
مظاہرین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور سیکریٹریٹ میں اندر اور باہر جانے کے متبادل راستے کھول دیے ہیں۔
شیخ رشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سے 16 گریڈ تک کے 95 فیصد ملازمین کے مطالبات جائز ہیں اور ہم انہیں ماننے کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے آخری لمحے میں اسے 22 گریڈ تک کردیا جس سے بڑا فرق پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے ہمارے اختیار میں نہیں، ان کی بات صوبوں میں ہی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ کہتے ہیں کہ بیسک تنخواہ میں دی جائے اور ہم ایوریج میں دے رہے ہیں، کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا’۔
شیخ رشید نے بتایا کہ شام تک مظاہرین سے مذاکرات کے لیے وفد بھیجا جاسکتا ہے۔