وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ حکومت کا کوئی فیورٹ ہے نہ کسی کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور جہانگیر ترین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ پاکستان میں چینی کے اسکینڈل کا آنا کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے، چینی کی قیمتیں ہمارے دور میں بڑھیں، اس سے چار سال قبل بھی بڑھی تھی، مشرف دور میں بھی بڑھی تھی اور اس وقت ایک بہت بڑا اسکینڈل ہوا تھا کیونکہ باہر سے درآمد ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی میں کوئی ایسی چاشنی ہے کہ اس کی قیمتیں بھی زیادہ بڑھتی ہیں اور اسکینڈل بھی زیادہ آتے ہیں لیکن عمران خان کی حکومت میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے اس کی تفصیلی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا جو شوگر کمیشن کی صورت میں سامنے آیا۔تحریر جاری ہے
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں مختلف ایکشن تجویز کیے گئے، شوگر کی صنعت سے تعلق رکھنے والوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا، ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک پاکستان کے مہنگے وکلا کی مدد سے اسے چیلنج بھی کیا لیکن حکومت پاکستان نے ناصرف ان چیلنجز کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا بلکہ عدلیہ سے بھی گرین چٹ ملی کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان پر کارروائی ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ذمے دار صرف شوگر کمپنی نہیں بلکہ سٹہ مافیا بھی ہے جو اپنے فائدے کے لیے اس کی قیمتیں بڑھاتا ہے۔
مشیر داخلہ و احتساب نے سٹہ اور شوگر مافیا کے طریقہ واردات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سٹہ مافیا مصنوعی طور پر قیمتوں پر قیاس آرائی کرتا ہے، پنجاب میں آٹھ سے دس بڑے لوگ اس کام میں ملوث ہیں جو پوری چینی کی مارکیٹ کو چلاتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ قیمت کیا ہو گی۔
انہوں نے اس کام میں ملوث ایک بڑے شخص کے واٹس ایپ پر قیمتوں کے حوالے سے کی گئی قیاس آرائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فروری میں بیٹھ کر پہلے طے کیا ہوا ہے کہ اپریل میں ماہ رمضان کے موقع پر چینی کی قیمت کیا ہو گی، اگر میں اس وقت 8800 کی 100 کلو کی بوری بیچ رہا ہوں تو آج سے بتا رہا ہوں کہ اپریل کے شروع میں اس کی قیمت 9460 فی بوری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ چینی کی پیداوار تین سے چار ماہ میں پوری ہوجاتی ہے، نومبر میں کرشنگ شروع ہوتی ہے اور فروری مارچ میں جا کر ختم ہو جاتی ہے، چینی کو بنانے میں خرچ چار ماہ میں ایک دفعہ آ جاتا ہے تو اس کی قیمت یکساں رہنی چاہیے اور بہت سے بہت ایک آدھ روپے کا فرق آنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسی مصنوعات ہے جو مقامی سطح پر بنتی ہے، جس کی لاگت بھی وہی ہے لیکن اس کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور یہ وہ چند لوگ ہیں جو قیمتوں میں ردوبدل کے ذمے دار ہیں لیکن یہ لوگ یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ چینی کی قیمت کبھی مقرر نہیں کی گئی اور جب بھی ہم نے یہ مطابہ کیا تو شور بھی مچایا جاتا ہے اور ہیلے بہانے بھی بنائے جاتے ہیں قیمت مقرر کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب انہی لوگوں نے سبسڈی لینی ہوتی ہے تو اس کی بنیاد اسی مل کی قیمت کو بنایا جاتا ہے جو راتوں رات مقرر ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات تھیں کہ ماہ رمضان میں یہ چینی کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کرنے جا رہے تھے اور واٹس ایپ گفتگو اور دیگر دستاویزات سے اس کی تصدیق ہو گئی ہے کہ موجودہ قیمت کے مقابلے میں رمضان میں 20 سے 30 فیصد اضافے کی تیاری کی جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان اطلاعات کی روشنی میں اگر ہم کارروائی نہ کرتے تو عوام کو اسی سٹہ اور چینی مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے اور شواہد کی جانچ پڑتال سے اب تک سٹہ مافیا کے 40 سے زائد سرکردہ افراد کے 16 واٹس ایپ منظر عام پر لائے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 40 سٹے بازوں کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی جس میں 464 ذاتی بینک اکاؤنٹس میں 106 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ملی ہیں اور ان اکاؤنٹس میں 32 کروڑ کی رقم منجمد کردی گئی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر نے مزید بتایا کہ ان واٹس ایپ گروپس کے ذریعے کچے کھاتوں کا بھی پتا چلا ہے ان میں 392 خفیہ، بے نامی اور تھرڈ پارٹی کے بینک اکاؤنٹس کا پتا چلا ہے، 464 وہ تھے جو اپنے ناموں پر تھے اور 392 بے نامی اکاؤنٹس ہیں۔
ان کہنا تھا کہ ایف آئی اے 12 سے زائد ایف آئی آر درج کر چکا ہے، ان میں مختلف لوگوں کو بلایا بھی جا رہا ہے، یہی کام ایف آئی نے کراچی میں بھی کیا ہے، وہاں بھی سٹے بازوں کو پکڑا ہے اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔