پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے استعفوں کے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں جبکہ ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘پی ڈی ایم کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا، اجلاس میں نہ آنے والے قائدین سے ٹیلی فون پر رابطہ ہے، پی ڈی ایم 10 جماعتوں کے اتحاد کا نام ہے جس میں تمام جماعتوں کی حیثیت برابر ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے اکثر فیصلے اتفاق رائے سے سامنے آئے، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا متفقہ فیصلہ کیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ان فیصلوں کی خلاف ورزی ہوئی اور نتائج برآمد ہوئے تو تنظیمی تقاضہ تھا کہ جس جماعت سے شکایت ہے ان سے وضاحت طلب کی جائے، ہر جماعت کی قیادت تنظیمی معاملات ضابطہ کار کے تحت انجام دیتی ہے، فیصلوں کی خلاف ورزی پر وضاحت طلبی وقت کا تقاضا تھا’۔تحریر جاری ہے
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘دونوں جماعتوں کے سیاسی قد کاٹھ کا تقاضا تھا کہ باوقار انداز میں وضاحت کا جواب دیتیں، غیر ضروری طور پر اس کو عزت نفس کا مسئلہ بنانا، سیاسی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا، دونوں جماعتیں وضاحت دینے کے لیے پی ڈی ایم کا سربراہی یا اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی تقاضہ کر سکتی تھیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پی ڈی ایم قومی سطح کے مقاصد کے لیے قائم کیا گیا اتحاد ہے، یہ عہدوں اور منصب کے لیے لڑنے کا فورم نہیں ہے، ہم نہیں چاہتے تھے کہ تنظیمی اختلافات چوک پر لے جائیں، اب بھی ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں اور پی ڈی ایم سے رجوع کریں، ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں اور مل کر شکایتیں دور سکتے ہیں’۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا استعفیٰ بھیجنا افسوسناک ہے، افسوس ہے کہ دونوں جماعتوں نے خود کو پی ڈی ایم سے علیحدہ کر لیا’۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے ساتھ چلنے کے لیے معافی مانگنے کے مطالبے سے متعلق سوال پر پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ‘یہ بیان اس قد کاٹھ کا نہیں جس پر میں تبصرہ کروں، ان ہی چیزوں سے ہم ان کو روک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سنجیدگی اور سیاست میں وقار پیدا کریں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری شکایت بجا ہے، وضاحت طلب کرنا ہمارا حق ہے، انہوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے انہیں نہیں اپنانا چاہیے تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘دونوں جماعتوں کے استعفوں کی منظوری ملتوی کی ہے، ہم موقع دے رہے ہیں کہ پاکستان کے عظیم الشان مقصد کو اولیت دی جائے، آپ بہت چھوٹی سطح پر آکر فیصلے کر رہے ہیں یہ آپ کا مقام نہیں ہے’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم میدان میں رہے گی، پی ڈی ایم کی تحریک اور اس کے آگے بڑھنے کی رفتار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے، اپنے دوستوں کو واپس لانے کے لیے ہم نے ان کا انتظار کیا، اب بھی کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے بیان بازی میں بالکل نہیں الجھنا، یہ ہمارا آخری بیان ہے، ہماری طرف سے جواب آگیا، اب ان سے توقع ہے کہ وہ بلوغت کا مظاہرہ کریں گے’۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ووٹ لینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہی نہیں تھی کہ وہ ‘باپ‘ کو ’باپ‘ بنائیں گے۔
قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے ایک روز بعد پی پی پی رہنماؤں نے اپنے استعفے اپوزیشن اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمٰن کو بھجوا دیے تھے۔
علاوہ ازیں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو پی ڈی ایم کے واٹس گروپ سے بھی نکال دیا گیا، احسن اقبال نے تمام رہنماؤں کو گروپ سے نکالا۔
یوں پیپلز پارٹی نے باضابطہ طور پر اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے علیحدگی اختیار کرلی۔
ڈان نیوز کو دستیاب نقول کے مطابق سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن اور قمر زمان کائرہ نے اپنے استعفے بھجوائے۔
مذکورہ رہنماؤں نے پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی اور سینئر نائب صدر کے عہدوں سے استعفے دیے ہیں۔
تینوں رہنماؤں کے استعفے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے پی ڈی ایم سربراہ کی رہائش گاہ پر بھجوائے۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 2 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد گزشتہ روز پریس کانفرنس کر کے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ اختلافات لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے پر سامنے آئے تھے جس کے بعد سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر ان میں شدت آگئی تھی، جس میں اس کا ساتھ عوامی نیشنل پارٹی نے دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم میں ہوئے سمجھوتے کے تحت سینیٹر اعظم تارڑ کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی خواہاں تھی جبکہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں نامزد پولیس اہلکاروں کا وکیل ہونے پر پیپلز پارٹی کو اس پر تحفظات تھے۔
پیپلز پارٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ یوسف رضا گیلانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کی صورت میں یوسف رضا گیلانی کو دینے کا سمجھوتہ ہوا تھا اس لیے ان کی ناکامی کے بعد پی پی پی سینیٹ میں اکثریتی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا حق رکھتی ہے۔
بعدازاں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مخالفت کے باوجود اے این پی اور دیگر اراکین کی مدد سے سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرلیا تھا۔
مذکورہ پیش رفت پر پی ڈی ایم کی جانب سے پی پی پی اور اے این پی کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھیجے گئے تھے۔
مذکورہ نوٹس پر اے این پی نے باضابطہ طور پر اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا اور پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس میں چیئرمین پی پی پی نے بھی شو کاز نوٹس پھاڑ دیا تھا۔