وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی میں سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد ترکی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، واحد راستہ جامع اور وسیع مذاکرات ہیں۔
سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں ترک اور افغان وزرائے خارجہ کے ساتھ، سہ فریقی اجلاس کے بعد ترک وزیرخارجہ میولت چاؤش اوغلو کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے آج سہ فریقی اجلاس میں شرکت کر کے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ افغان امن عمل کے اس اہم موڑ پر سہ فریقی اجلاس کا انعقاد بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس فورم کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف وزارتی سطح پر بلکہ سربراہی سطح پر کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہم نے اس سہ فریقی اجلاس میں، ہائی سطح پر معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا، بین الافغان مذاکرات کی صورت میں افغانوں کے پاس ایک نادر موقع ہے، انہیں چاہیے کہ وہ سب مل کر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، واحد راستہ جامع اور وسیع مذاکرات ہیں، اسی لیے ہم طالبان کو بار بار مذاکرات کا کہتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مستقبل کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں بدامنی کی سب سے بھاری قیمت، وہاں کے عوام کے بعد پاکستان نے چکائی ہے ہمیں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ایک پرامن افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے، مجھے خوشی ہے کہ کانفرنس ملتوی ہونے کے باوجود آپ نے اس اہم اجلاس کا انعقاد کیا اور آج ہم نے افغان امن عمل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہم نے علاقائی روابط کے فروغ کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا، ہم نے اقتصادی تعاون، غیر قانونی ہجرت کے مسئلے پر بھی بات چیت کی اورغیر قانونی ہجرت پر مؤثر انداز میں مشترکہ کاوشوں کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارا مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ بھی ہماری سوچ میں یکسوئی کا مظہر ہے، افغانستان میں قیام امن سے خطے میں روابط کو فروغ ملے گا۔