مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ اتنی ساری قربانیاں دینے اور جدوجہد کے بعد کیا ہم پاگل ہیں کہ ان ہی لوگوں سے ڈیل کرلیں گے جن کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) مریم نواز کا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں عدم شرکت کے بارے میں کہنا تھا کہ اس میں میری اور جماعت کی نمائندگی ہمارے صدر شہباز شریف نے کی جہاں وہ موجود ہوتے ہیں وہاں ہماری ضرورت نہیں ہوتی۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ قیادت نے انہیں آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کی ذمہ داری دی ہے جس کی تیاریوں میں وہ مصروف تھیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان کے شرپسندوں سے بات چیت کے عندیے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے آپ کو کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے پاس جانا چاہیے تھا، آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے بلوچستان نزدیک آنے کے بجائے مزید دور جائے گا اس لیے ان کی شکایات دور کر کے انہیں پاکستان سے جوڑنا چاہیے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں اور لانگ مارچ نہ ہونے اور بجٹ اجلاس میں عدم شرکت کے پیچھے ڈیل سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ ڈیل کیوں اور کس کے ساتھ ہوگی، اتنی ساری قربانیاں دینے اور جدو جہد کے بعد کیا ہم پاگل ہیں کہ ان ہی لوگوں سے ڈیل کرلیں گے جن کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن سب سے مضبوط ہے اور اگر انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوئے تو بلا شک و شبہ ہم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے لیکن عوام کو نظام پر اعتماد نہیں اور چونکہ دھاندلی ہوتی آئی ہے اس لیے وہ تحفظات کا شکار ہیں اس کے باوجود اس بات میں کوئی 2 رائے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر میں سب سے مضبوط جماعت ہے۔
افغانستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ آپ کو پہلے اپنے گھر کو دیکھنا اور اسے ٹھیک کرنا چاہیے، بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور اپنے ذاتی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی، سیاسی ساکھ سے منسلک نہیں ہونی چاہیے وہ آپ کی ذاتی نہیں بلکہ قومی پالیسی ہے اور اس پر پورے پاکستان کا ایک ہی مؤقف ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آپ کمزور ہیں تو مؤقف کچھ اور ہو اور مضبوط ہیں تو کچھ اور ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم سے سچ بولنا چاہیے، قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکنی چاہیے، اصل پالیسی کچھ اور ہو جبکہ قوم کے سامنے آپ کوئی اور پالیسی بنائیں تو یہ غلط ہے۔
انتخابی دھاندلی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم صرف الزامات نہیں لگارہے بلکہ اس کے پسِ پردہ بہت بڑے بڑے ثبوت ہیں اور ڈسکہ الیکشن اس کی مثال ہے کہ جب الیکشن کمیشن کے عملے کو اغوا کرلیا گیا تھا، پھر بھی ہار گئے اور اگر آزاد کشمیر میں بھی یہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کے راستے میں نہ آئیں، انتخابات کو چوری کرنے کی کوشش نہ کریں، آج تو آپ اس سے بچ جائیں گے لیکن بعد میں اس کے بہت سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے بہت اہم مقاصد حاصل کیے ہیں، پی ڈی ایم عوام کو یہ بآور کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ اس سے زیادہ نالائق، نااہل اور عوام دشمن حکومت پاکستان کے 73 سالوں میں نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا پی ڈیم کچھ کرے نہ کرے، لیکن ملک میں جس قدر مہنگائی ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، گیس کی بندش کی وجہ سے صنعتوں کا پہیہ رک گیا ہے اس سے قوم کے سامنے ان کی ساری حقیقت کھل کر آگئی ہے اور اس کے پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف محنت کر کے 3 سال میں 18، 18 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کو صفر پر لے آئے تھے، کل یہ حکومت کہہ رہی تھی کہ نواز شریف ضرورت سے زیادہ بجلی بناگئے، تو جب لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تو زیادہ بجلی بناگئے، لوڈشیڈنگ ہورہی ہو تو کم بجلی بنائی، خدا کا واسطہ قوم سے سچ بولیں۔
اسرائیل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے کیوں کہ بہت سارے خبر رساں ادارے اس بات کو رپورٹ کررہے ہیں جس کی تردید نہیں کی جارہی اور اگر ایسا ہے تو قوم کو بتائیں، یہ آپ کا ذاتی فیصلہ نہیں ہے۔
حکومت کے خاتمے سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ اللہ تعالی کو معلوم ہے لیکن یہ حکومت جب جائے گی تو دوبارہ نہیں آئے گی۔
صحافی ندیم ملک کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے نوٹس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایف آئی اے کا نوٹس ان لوگوں کو جانا چاہیے تھا جنہوں نے ارشد ملک کو بلیک میل کیا، جو ایشو سامنے لانے والے افراد انہیں نوٹس نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔
رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے یہ تحقیقات کی جائیں کہ کس طرح ایک جج کو ان کی پرانی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا اور نواز شریف کو جھوٹی سزا دلانے کی کوشش کی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب کوئی معنی نہیں رکھتا، صرف عوام کی چوائس ہونی چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کی چوائس جب عمران خان کی صورت میں عوام پر مسلط کی جاتی ہے اس کا نتیجہ آج پوری قوم دیکھ رہی ہے۔