اسٹیٹ بینک کی مانیٹری کمیٹی نے شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے ڈپٹی گورنر اور دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال سے زیادہ ہوگیا کہ پالیسی کی شرح 7 فیصد پر برقرار ہے اور مہنگائی کی رفتار سے شرح پالیسی کم ہے، جس کو ماہرین منفی ریٹ کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب کووڈ کی وبا شروع ہوئی تو شرح سود کو 7 فیصد پر رکھنے کا ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ معیشت کے ساتھ تعاون کیا جائے کیونکہ ہماری جی ڈی پی کی شرح بہت کم تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے کووڈ کے دوران جو اقدامات کیے اس کی وجہ سے شرح نمو مالی سال کے اختتام پر 3.9 فیصد تقریباً 4 فیصد تھا، مہنگائی کی شرح دو مہینے پہلے 9.7 فیصد تھی لیکن اب کمی ہوئی ہے اور جون میں 8.9 فیصد ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اس وقت بھی مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے، اس میں کمی کی ضرورت ہے لیکن تھوڑی کمی ضرور ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ معاشی حوالے سے بہتر اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جس میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، یہ گزشتہ مالی سال 1.8 بلینڈ ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 0.6 فیصد تھا، یہ دس سال میں سب سے کم سطح ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی سطح پر ابھی پیش رفت ہوئی خاص کر برآمدات اور ترسیلات میں تاریخ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔
مانیٹری پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بتایا گیا کہ کووڈ کی وبا ابھی دور نہیں ہوئی اور ان حالات میں استحکام کی خبر دیں اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کی سوچ یہی تھی کہ اس شرح کو برقرار رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر پالیسی ریٹ میں تبدیلی کی ضرورت پڑی تو اس میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئے گی اور 2019 کی طرح پالیسی نہیں ہوگی کیونکہ اس وقت خسارہ بہت زیادہ تھا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مئی اور جون میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارا بڑھا، جس میں کچھ چیزیں سیزنل ہوتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جون میں ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں کیونکہ بجٹ ختم ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے ہر سال جون میں ادائیگیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مئی اور جون میں کچھ نئی درآمدات ہوئیں، ہمیں کووڈ کی ویکسین درآمد کرنا پڑی جس کا پچھلے سال کوئی اثر نہیں تھا، پورے مالی سال میں درآمدات میں فوڈ درآمدات کا حصہ زیادہ رہا ہے، آٹا اور چینی کی درآمد ہوئی، اس کی وجہ یہ تھی حکومت ضروریات پوری کرنا چاہتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان ساری وجوہات کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا اور اہم چیز یہ ہے سارے سال کا خسارہ دس سال میں سب سے کم سطح 1.8 ارب ڈالر یا 0.6 فیصد جی ڈی پی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں تھوڑی سطح مناسب ہوتا ہے اور ہم اپنی معیشت کو 4 یا 5 کی رینج سے زیادہ میں رکھنا ہو تو اس طرح کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مناسب ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے خیال میں 2 سے 3 فیصد جی ڈی پی پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خاص کر ایمرجنگ مارکیٹس میں رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال ہماری ترسیلات زر میں 25 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اور امید ہے کہ اس سال میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ہماری برآمدات میں گزشتہ برس 13.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور رواں برس بھی برآمد کنندگان اپنی استعداد بڑھا رہے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے بھی ایک اسکیم دی ہے، جس کے تحت مشینری درآمد ہوئی ہے اور اسے ہماری پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
رضا باقر نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس سال برآمدات میں اضافہ ہوگا، اسٹیٹ بینک کا قدم روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ تھا، اس سے 1.8 ارب ڈالر آگئے ہیں اور اسی طرح دیگر مالی ذرائع دیکھیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کرنٹ خسارہ مکمل طور پر فنانسڈ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اتنے ذرائع دیکھ رہے ہیں کہ جس سے یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اوور فنانسڈ ہے، ہمارے ذخائر میں رواں مالی سال میں مزید اضافہ ہوگا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ اور ان برسوں کو دیکھیں جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا تو تین چیزیں خطرے کی علامت ہوتی تھیں، پہلی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی رفتار میں اضافہ، دوسرے نمبر پر کرنٹ اکاؤنٹ بڑھنے کے باوجود ایکسیچنیج ریٹ ایک سطح پر ہو اور تیسری چیز اسٹیٹ بینک کے ذخائر گر رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ یہ تینوں چیزیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ نہیں ہیں، اسی لیے اسٹیٹ بینک کو اطمینان ہے کہ جو اضافہ ہوگا وہ زیادہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہو اور ایکسچینج ریٹ کو ایڈجسٹ نہ کرنے دیں تو وہ پائیدار نہیں ہوتا ہے، اسی لیے ماضی میں تقریباً 19 ارب کا خسارہ ہوا اور ماضی کی وہ غلطی نہیں ہو رہی ہے کہ خسارہ بڑھ رہا ہو اور ایکسچینج ریٹ ایڈجسٹ نہ ہورہا ہو وہ نہیں ہے، اس لیے اطمینان ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ ہمارے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ ماضی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا تھا تو ذخائر میں کمی آتی تھی اور ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا تھا جبکہ ہم نے دو سال مسلسل ذخائر میں اضافہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک مناسب سطح پر ہے اور اگر 2 سے 3 فیصد جی ڈی پی پر جاتا ہے تو بھی ہم سمجھتے ہیں یہ مناسب ہے، ذخائر میں اگلے برس مزید اضافہ ہوگا۔
رضاباقر نے کہا کہ ہمارا بنیادی نکتہ ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں، مہنگائی آہستہ آہستہ کم ہوگی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مناسب سطح پر رہے گا اور قومی ذخائر میں اضافہ ہوگا اور اسے عام آدمی کو فائدہ ہوگا۔