اسلام آباد میں مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد امریکا اور پاکستان دونوں نے وسیع البنیاد تعلقات کو بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ فریقین کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز رہی۔
امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی آرشرمن مذاکرات کے لیے جمعرات کو اسلام آباد پہنچی، اپنے دورے کے دوران مذاکرات یا گفت و شنید کا محور افغانستان کی موجودہ صورت حال رہی اور کابل کے نئے طالبان حکمرانوں کے لیے مربوط نقطہ نظر تیار کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں پر توجہ دی گئی۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار نے پاکستانی دارالحکومت میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
ان کی وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات متوقع تھی لیکن ملاقات نہیں ہوسکی۔
جمعے کو محکمہ خارجہ نے اسلام آباد میں وینڈی آرشرمن کی مصروفیات کے بارے میں دو بیانات جاری کیے جو کہ امریکا پاکستان مذاکرات میں افغان مسئلے کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات میں وینڈی آرشرمن نے دوطرفہ تعاون کے شعبوں، امریکا پاکستان تعلقات کی اہمیت اور افغانستان میں آگے بڑھنے کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ڈپٹی سیکریٹری وینڈی آرشرمن نے افغانستان کے لیے مربوط نقطہ نظر کی اہمیت اور علاقائی استحکام کے لیے ضروری دیگر امور پر بھی زور دیا۔
وینڈی آرشرمن کی معید یوسف سے ملاقات کے بارے میں ایک اور مختصر بیان میں کہا گیا کہ دونوں عہدیداروں نے ’افغانستان میں پیش رفت اور دوطرفہ تعلقات میں تعاون کو آگے بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا‘۔
اسلام آباد میں ایک نیوز بریفنگ میں وینڈی آرشرمن نے کہا کہ یہ خاص دورہ افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ ہم حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس پر سیرحاصل مشاورت ہو۔
وینڈی آرشرمن کی بات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے جو انہوں نے جمعرات کو ممبئی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ امریکا اب خود کو پاکستان کے ساتھ ’وسیع البنیاد تعلقات‘ بنانے کے تناظر میں نہیں دیکھتا اور وہ اپنے دورہِ پاکستان میں’مخصوص اور محدود مقصد‘ رکھتی ہیں جس کا تعلق افغانستان سے ہے۔
بعد میں سماجی روابط کی ویب سائٹ میں وینڈا آرشرمن نے کہا کہ وہ شاہ محمود قریشی سے ’افغانستان کے مستقبل کے بارے میں‘ اور ’اہم اور دیرینہ‘ امریکا پاکستان تعلقات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ملیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم علاقائی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھنے کے منتظر ہیں۔
لیکن افغانستان پاکستان کے ساتھ دیرینہ شراکت داری کے حصول میں بھی ایک عنصر ہے جیسا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ نے بدھ کو نئی دہلی میں ایک نیوز بریفنگ میں بھارتی صحافیوں کے ایک منتخب گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ افغانستان کے لیے ’اوور دی ہورائزن ‘(او ٹی ایچ) صلاحیت کے لیے ایک مضبوط پروگرام منصوبہ چاہتا ہے۔
بھارت کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی اعلیٰ امریکی سفارت کار او ٹی ایچ کے بارے میں اس کی تفصیل نہیں بتائی لیکن ایک سینئر امریکی جنرل نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں کانگریس کی سماعت میں بتایا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ ایک اہم چیز کے استعمال پر براہ راست بات چیت کر رہا ہے جس کا تعلق افغانستان کے لیے ایئر کوریڈور کی فراہمی ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے اسلام آباد کے خلاف تعزیراتی کارروائیوں کے مطالبات پر مشتمل سماعت میں پاکستان کے تعاون کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اس دوران 22 ریپبلکن سینیٹرز کے ایک گروپ نے امریکی سینیٹ میں ایک بل بھی پیش کیا جس میں افغان جنگ میں اسلام آباد کے مبینہ کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
جنرل میک کینزی نے کہا تھا کہ گزشتہ 20 برس میں ہم مغربی پاکستان میں جانے میں کامیاب رہے ہیں جسے ہم ’ایئر بلیوارڈ‘ کہتے ہیں اور یہ ایک ایسی چیز بن گئی ہے جو ہمارے لیے ضروری ہے جس میں مواصلات کی کچھ لینڈ لائنیں بھی شامل ہیں۔