برطانیہ نے روس کی جانب سے ممکنہ حملے کے پیش نظر یوکرین سے اپنے سفارتی عملے کا انخلا شروع کردیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ برطانوی سفارتکاروں کو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے پھر بھی کیف میں تعینات عملے میں سے نصف کو واپس بلایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے بھی اپنے سفارتی عملے کے رشتے داروں کو فوری طور پر یوکرین چھوڑنے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ روس کسی بھی وقت چڑھائی کر سکتا ہے۔
ادھر روس نے یوکرین میں کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی کا امکان رد کیا ہے تاہم اس کی سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی پہنچ چکے ہیں۔
یوکرین میں یورپی یونین کا عملہ بدستور موجود رہے گا، یورپی یونین کے فارن پالیسی چیف جوزیف بوریل کا کہنا ہے کہ وہ اس کشیدگی پر ڈرامائی ردعمل نہیں دیں گے۔
نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے رکن ممالک بشمول ڈنمارک ، اسپین، بلغاریہ اور نیدرلینڈز نے مشرقی یورپ میں جنگی طیاروں بحری جہازوں کی تعیناتی شروع کردی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق روس کی یوکرین کے ساتھ ملحق سرحد پر ایک لاکھ کے قریب روسی فوجی موجود ہیں جس پر نیٹو کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یورپ میں نیا تنازع جنم لے سکتا ہے۔
امریکا نے یوکرین میں موجود اپنے غیر ضروری سفارتی عملے کو بھی نکل جانے کا کہا ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس کا یہ اقدام باضابطہ انخلا کا عمل نہیں بلکہ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے کہ اگر روس نے حملہ کردیا تو وہ انہیں نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی امریکی شہریوں کو یوکرین اور روس کا سفر نہ کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ اس معاملے پر یوکرین کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے سفارتی عملے کے رشتے داروں کو ملک چھوڑنے کا کہنے قبل از وقت ہے اور وہ اس معاملے پر کچھ زیادتی ہی احتیاط برت رہا ہے۔
ہفتے کے روز امریکا کی جانب سے 90 ٹن ’مہلک امداد‘ جس میں مورچوں پر تعینات فوجیوں کیلئے ہتھیار بھی شامل تھے، یوکرین پہنچے۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ارادوں کا جائزہ لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گی جن میں مزید عسکری امداد کے ساتھ یوکرین کا دفاع مضبوط کرنا بھی شامل ہے۔