پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ عمران خان سے جان چھڑائی جائے، ورنہ عوام صرف حکومت پر نہیں بلکہ اپوزیشن پر بھی تنقید کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جج صاحبان نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے سوالات کیے اور ان کے پاس جواب نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج کی سماعت میں اللہ تعالیٰ نے نیب اور عمران خان کا گٹھ جوڑ واضح کردیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اور انصاف کا انتظار کروں گی۔
تحریک عدم اعتماد تحریک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا حکومت عوام کے عدم اعتماد کا شکار ہوچکی ہے، اپوزیشن جماعتیں اور اراکین اسمبلی پہلے ہی اس تحریک کے لیے تیار ہیں، عمران خان کی پارٹی کا کوئی نظریہ نہیں ہے جبکہ ان کے ساتھی صرف اقتدار کے ساتھ ہیں۔تحریر جاری ہے
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت اب ڈولتی ہوئی نظر آرہی ہے، آئندہ یہ پارٹی نظر نہیں آئے گی۔
انہوں نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کو مشورہ دیا کہ اب اگر آپ عوام میں جائیں تو ہیلمٹ لے جانا نہ بھولیں، اب بھلے آپ کنٹینر پر چڑھ جائیں، عوام کے ہاتھ آپ کے گریبان تک پہنچ چکے ہیں اب آپ اپنی خیرمنائیں۔
ایک سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی ایک نظریے پر ہے، یہ سیاسی جماعتوں کے فرض میں شامل ہے کہ عمران خان کی صورت میں ملک پر جو ایک عذاب قوم پر نازل ہوچکا ہے اس سے عوام اور پاکستان کی جان چھڑائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس عذاب سے عوام کی جان نہیں چھڑائی گئی تو جتنی قصوروار حکومت ہوگی اتنی ہی قصوار اپوزیشن بھی ہوگی، اس کے بعد عوام تمام سیاسی جماعتوں پر تنقید کریں اور اس کا آغاز اب ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف پہلے عدم اعتماد کی تحریک کے حامی نہیں تھے، تاہم نواز شریف کی قیادت میں ہونے والے پارٹی کے اجلاس میں انہوں نے بھی اس بات کی ہانمی بھری کیونکہ وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ یہ قوم، یہ ملک اور یہ عوام مزید تباہی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وہ حالات آچکے ہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت کسی کے لیے بھی قابل اعتماد نہیں رہے، جن کی حمایت عمران خان کو حاصل تھی ان کی بھی اولین ترجیح پاکستان کے عوام ہیں اور اب عوام کا اشارہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام اداروں کو دیکھنا پڑے گا۔
انہوں نےبات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ صرف عوام کی بات نہیں ہے، بلکہ ہمارے سپاہی اور فوجی بھائیوں کو بھی مہنگائی نے شدید متاثر کیا ہے، وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں کہ اپنی بنیادی ضروریات دیکھیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ملک میں حکومت کے خلاف جو ماحول بنا ہے یہ عوام کی آواز ہے اس پر سب کو لبیک کہنا پڑے گا۔
صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نائب صدر مسلم (ن) کا کہنا تھا کہ عمران خان آج کل جتنی بھی تقاریر کرتے ہیں وہ اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی چیخیں اس لیے سنائی دے رہی ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے وزرا اس کشتی سے چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) آگ کے سمندر سے گزری ہے، پھر بھی نواز شریف کی قیادت میں متحد رہی ہے، لیکن عمران خان کی کشتی ابھی لڑکھڑائی ہی ہے تو ان کے اراکین دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کی تاریخی ناکامی اور نا اہلی کا بوجھ لے کر ان کے اتحادی اور وزرا انتخابی میدان میں نہیں اتریں گے۔
عدم اعتماد سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حالات عمران خان کی ناکامی، دہشت گردی اور عوام کی بد دعاؤں سے بدلے ہیں۔
مریم نواز نے حکومتی اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اگلے انتخابات میں باعزت طور پر عوام کے درمیان جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ اس حکومت کو سپورٹ نہ کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ر صفدر کی اپیلوں اور نیب کی نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن صفدر لیگی رہنماؤں کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے عرفان قادراور نیب کی جانب سے عثمان غنی چیمہ، سردار مظفر اوردیگر عدالت پیش ہوئے۔
عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہاکہ ماضی میں ایسے کیسز عدالتی تاریخ میں متنازع رہے ہیں،احتساب عدالت نے سزا سناتے وقت عدالتی اختیار کا غلط استعمال کیا، ریفرنس دائر ہونے سے لے کر ٹرائل تک کا عمل اختیار کا غلط استعمال تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ انصاف کے قتل کے حوالے سے برطانیہ میں دو کیسز کا حوالہ دیا جاتا ہے، پراسیکیوشن نے شواہد پلانٹ کیے تھے اور وہ سزائیں کالعدم ہوئی تھیں۔
عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہاکہ قانون کی عارضی اور چھوٹی موٹی غلطیوں کو اکٹھا کر کے اس پر دلائل دوں گا، پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر حکومتی فیصلوں سے مختلف نہیں، پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کیسز کا استعمال کیا گیا، پانامہ میں عمران خان کے کیس میں وزیراعظم کو ہٹایا گیا جبکہ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں، اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے، اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے، نیب آرڈیننس کے سیکشن 9-اے(5) کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب نے اس کیس میں تفتیش ہی نہیں کی تو پھر ریفرنس کیسے دائر کیا؟ میں چاہتا ہوں کہ عدلیہ مضبوط ہو، عدلیہ کو انڈر مائن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، میں نے بات شروع کی تھی کہ حکومتوں کو گھر بھجوانے کے تین طریقے ہیں،حکومت کو گھر بھجوانے کا پہلا طریقہ مارشل لا اور دوسرا صدر پاکستان کے ذریعے گھر بھجوانے کے لیے استعمال ہوا۔
جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ اس میں نہ جائیں، ہم اس پر نہ ہاں کر سکتے ہیں اور نہ ہی نہ، اگر آپ ثابت کر دیں کہ پراسیکیوشن جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوا تو باقی باتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
جسٹس عامر فاروق نے مزید کہاکہ آپکا کیس یہ ہے کہ پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت نہیں کر سکی، اگر کیس ثابت نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ کی آبزرویشنز کا مسئلہ نہیں رہتا۔
وکیل نے کہاکہ نیب نے اس کیس کی انکوائری کی ہی نہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے برٹش ورجن آئی لینڈ کی چٹھی کو ثبوت کے طور پر ٹریٹ کیا گیا، یہ سارا کیس ہی اس لیٹر پر ہے، احتساب عدالت نے مریم نواز کو برٹش ورجن آئی لینڈ کے ایک خط پر سزا دی اور اس خط کو بنیادی شہادت تصور کیا گیا، برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط میں کہا گیا کہ مریم نواز اپارٹمنٹس کی مالک ہیں، احتساب عدالت نے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کے جواب میں مریم نواز کچھ پیش نہ کرسکیں۔
وکیل عرفان قادرنے کہاکہ میرے مؤکل کے حوالے سے یہاں اس میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ لیٹر بھی نیب نے نہیں منگوایا، ٹرائل سے قبل جے آئی ٹی کی درخواست پر آیا۔
جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ 2012 کی ایک چٹھی کا حوالہ دے رہے ہیں، کیا قانون شہادت کے مطابق اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ یہ لا فرم کا فنانشل ایجنسی کو لکھا ہوا خط ہے، برٹش ورجن آئی لینڈ کا پاکستان میں جو تصور پیش کیا جاتا ہے کہ وہ درست نہیں،وہاں قانون کے مطابق پروٹیکشن دی جاتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیاکہ ایم ایل اے میں جس وکیل اور ایجنسی کا حوالہ ہے کیا ان کا بیان ہوا ؟،برطانوی ایجنسی اور لاء فرم کے بیان کے بغیر خط شہادت کیسے ہے؟، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ایک چٹھی سے تو یہ ثابت نہیں ہو گا، کسی نے عدالت آ کر بھی تو بتانا ہو گا۔
دوران سماعت عدالت نے نیب پراسیکیوٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی نمائندہ پیش ہوا اور نہ ہی کوئی وکیل، کیا چٹھی خود سے سب کچھ واضح کرسکتی ہے؟، ہمیں ریکارڈ سے بتائیں، فیصلہ کرنا ہمارا حق ہے۔
عدالت نے نیب پراسکیوٹر کو نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بار بار تاریخ نہیں ہوگی، سوال کیا ہے آپ اس کا جواب دیں، ہم نے آج عرفان قادر کو نہیں سننا، آپ نے سوال کا جواب دینا ہے اور ہم نے یہاں سے اٹھنا ہے، آپ نے صرف اتنا بتانا ہے کہ مریم نواز نے ایسا کیا کیا جس سے وہ ملزم قرار پایا۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ مرکزی ملزم یہ بتانے سے قاصر رہے کہ انہوں نے پراپرٹی کیسے خریدی، عدالت نے کہاکہ جس دستاویزات کا آپ حوالہ دے رہے انہی پر ان کو اعتراض ہے، کیا یہ دستاویزات ٹرائل کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے ٹرائل کے دوران یہ ثابت کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے، عدالت نے کہا کہ کیا مریم نواز اس دستاویز کو مانتی ہے؟، نیب پراسیکیوٹر نےکہاکہ جی بالکل مریم نواز نے اس دستاویز کو مانا ہے اور ابھی تک انکاری نہیں۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہاکہ مریم نواز کا دعویٰ تھا وہ اس جائیداد کی ٹرسٹی ہیں لیکن ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ وہ ٹرسٹی نہیں بینیفشل مالک ہیں، ہم نے اس ٹرسٹ ڈیڈ میں جعلسازی ثابت کی ہے، اس ٹرسٹ ڈیڈ کو سپریم کورٹ میں جمع کرایا اور پھر جے آئی ٹی کے سامنے تصدیق کی، اُس جعلسازی کیخلاف الگ سے کارروائی اپیلوں کے بعد ہونی ہے۔
عدالت نے کہاکہ جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ جو جعلی کہتے ہیں تو اس کو مطلب کیا ہے؟ ٹرسٹ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا اس پر بعد میں آتے ہیں، کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا کہیں یہ ثابت ہوا اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا بھی کہیں ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر ایسا ہے تو پھر ڈاکومنٹ جعلی نہیں، پری ڈیٹڈ کہلائے گا، ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں یہ ان کی ڈیڈ ہے، کیپٹن صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے۔
عدالت نے تمام فریقین کو کیس پیپر بکس دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 17 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔