جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینا درست اقدام تھا لیکن معمول کی کارروائی سے عوام میں بےچینی پیدا ہورہی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک میں اس وقت ایک آئینی بحران برپا کیا گیا ہے، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایک آمر آئین کو اس بے رحمی سے پامال نہیں کرتا جتنا آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے عمران خان نے حالیہ اقدام سے کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم ملک کے آئین کے تحفظ کے لیے بیدار ہو، میں اپیل کرتا ہوں کہ آنے والے جمعہ یوم تحفظ آئین کے طور پر منایا جائے گا، ائمہ مساجد اور خطیب اپنے خطبات میں عمران خان کی آئین شکنی اور ان کی حکومت کی جانب سے کیے گئے حالیہ اقدامات کی مذمت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے بحران شروع ہوا اور اسمبلی تحلیل ہونے سے یہ بحران مزید سنگین ہوگیا۔تحریر جاری ہے
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ قوم بیدار ہو اور جمعے کو یوم احتجاج منائیں، عوام مل کر ریلیاں نکالیں اور اس غیرجمہوری اور غیراخلاقی اقدام کی نفی کریں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ آئین کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں، عدلیہ کی آزادی، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے فرائض اور آئین کے متعین کردہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اس دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضمانت دیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینا درست اقدام تھا لیکن معمول کی کارروائی سے عوام میں بےچینی پیدا ہورہی ہے، ترجیحی بنیادوں پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا جائے اور اراکین کو تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کرنے اور نئے وزیراعظم کے انتخاب کا حق دیا جائے جس کے بعد آئندہ انتخابات کا شیڈول دیا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس نام نہاد حکومت کے غیرآئینی اقدامات سے پاکستان میں منصفانہ اقدامات کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ دھاندھلی کی پیداوار حکومت دوبارہ دھاندھلی سے نئی حکومت بنانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان شا اللہ وہ دن آنے والے ہیں جب یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ جس خط کا سہارا لے کر یہ ڈراما مچایا گیا وہ خط بھی جھوٹ ہے اور اس کے مندرجات بھی غلط بیان کیے جارہے ہیں، سیکیورٹی کمیٹی کے ذمہ داران نے اب یہ بات کہہ دی ہے کہ اس کے پور متن میں کہیں بھی ہمیں غیرملکی مداخلت کے آثار نظر نہیں آئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیوں جھوٹ بولا جارہا ہے؟ یہ خط تو روزانہ آتے رہتے ہیں، معمول کی بات ہے، اب حقائق سامنے آرہے ہیں، یہ جھوٹ نہیں چلے گا، چند دنوں میں یہ خط بھی مرجائے گا اور خط کو لہرانے والا ہاتھ بھی شل ہوجائے گا، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ہی کے ایک چینل پر سیکیورٹی ادارے اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرچکے ہیں جس میں انہوں نے اس بات کی سراہت کی ہے کہ اس خط میں کسی قسم کی باہر کی سازش کے اثرات نظر نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ آج متحدہ اپوزیشن کی سربراہان کا اجلاس ہے، میں نے سب کو شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ اگلے مراحل کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے لیکن ہم اپنے تاثرات دے سکتے ہیں کہ معمول کی کاروائی سے عوام میں بے چینی پائی جارہی ہے، ہمارے اعتراضات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
صحافیوں سے گفتگو کے اختتام میں انہوں نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت نہیں، نظریہ جمہوریت چاہیے۔