پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جبکہ عدالت نے رات ساڑھے گیارہ بجے تک نہیں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف ان کی بیٹی ایمان زینب مزاری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامے میں شیریں مزاری کو رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔تحریر جاری ہے
عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پیش ہو کر بتائیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں کی گئی۔
شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کو گھر پر فوری نوعیت کی درخواست سے آگاہ کیا گیا تھا۔
ایمان زینب مزاری نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ میری والدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی ناقد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دن کے اجالے میں والدہ کو اٹھایا گیا اور اہل خانہ کو اس متعلق کوئی معلومات بھی فراہم نہیں کی جا رہ ہیں، والدہ کو وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔
ایمان زینب مزاری نے شیریں مزاری کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کی اور درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو فریق بنایا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا کہ والدہ کو زبردستی اٹھائے جانے کی اطلاع پر قریبی پولیس اسٹیشن کوہسار پہنچے تو کسی ایف آئی آر کی معلومات نہیں دی گئیں۔
دوسری جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری، ذلفی بخاری ، فرخ حبیب اور دیگر رہنما بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
پی ٹی آئی نے بھی شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری بھی عدالت میں موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں عاصمہ قدیر، ظل ہما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی انیتا محسود نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف شیریں مزاری کے ‘اغوا’ کا مقدمہ درج کرانے کے لیے اسلام آباد کے تھانہ کوہسارمیں درخواست دائر کردی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا، جس کی ویڈیو بھی موجود ہے، پولیس قواعد کے مطابق اینٹی کرپشن کو متعلقہ تھانے میں آمد اور روانگی سے قبل نوٹ کروانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے متعلقہ تھانے کو آگاہ نہیں کیا، اس سارے وقوع کے ذمہ دار حمزہ شہباز ہیں لہٰذا ان کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا جائے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیریں مزاری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت دیگر سیاست دانوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی اور گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیا گیا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں بیان میں شیریں مزاری کی بیٹی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا تھا کہ ‘مرد پولیس اہلکاروں نے میری والدہ کو مارا اور اپنے ساتھ لے گئے، مجھے صرف اتنا بتایا گیا کہ انہیں لاہور کا اینٹی کرپشن ونگ اپنے ہمراہ لے کر گیا ہے’۔
شیریں مزاری کی گرفتاری کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین پولیس اہلکار انہیں کار سے باہر نکال رہی ہیں جبکہ انہیں احتجاج اور یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘‘مجھے مت چھوئیں‘۔
فوٹیج میں نامعلوم آواز بھی سنی جاسکتی ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘کوئی مسئلہ نہیں ہے’ اور معاملے پر پرامن طریقے سے بات ہوسکتی ہے جبکہ شیریں مزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ‘آپ وائیلنس کر رہے ہیں، آپ میرا فون نہیں لے سکتے ہیں’۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان زینب مزاری نے کہا کہ غنڈوں کی طرح ایک عورت کو آج اٹھایا گیا نہ اس کے خاندان کو کچھ بتایا گیا تو اگر اس قسم کی حرکتیں کرنی ہیں تو میں اس حکومت کو وارننگ دیتی ہوں کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کس کیس میں لے کر جارہے ہیں لیکن میری والدہ کو اس حکومت کی جانب سے جبراً لاپتا کیا گیا ہے مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں خواتین ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں تو میں اس حکومت کو ایک واضح پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر میری والدہ کو کچھ ہوا تو میں انہیں چھوڑوں گی نہیں۔