ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل سپریم کورٹ کے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے جمعرات کو مشاہدہ کیا کہ صرف آئین بنانے والے ہی ’سرجیکل آپریشن کے ذریعے انحراف کے کینسر کی رسولی‘ کو نکال سکتے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح پر 17 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں مشاہدہ کیا کہ میں ایک حد تک اس بات سے اتفاق کر سکتا ہوں (کہ انحراف/ہارس ٹریڈنگ ایک کینسر ہے اور ہمیں اسے آہنی ہاتھ سے روکنا ہوگا) لیکن میرے قلم کی ضرب سے اس لعنت کو نہیں روکا جاسکتا۔
17 مئی کو سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر تین، دو کی اکثریت سے فیصلہ دیا تھا کہ آئین سے انحراف سے متعلق آرٹیکل 63-اے انفرادی رکن کے مقابلے میں پارلیمانی پارٹی کے بنیادی حقوق کو یقینی بناتا ہے، اس لیے پارٹی لائن کے برعکس پولنگ ووٹ کو شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔تحریر جاری ہے
فیصلے سے اختلاف کرنے والے دو ججوں میں سے ایک جسٹس مظہر عالم خان نے مشاہدہ کیا کہ وہ اکثریتی فیصلے کا انتظار کرتے رہے لیکن انہوں نے اپنا نوٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ 13 جولائی کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم خان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے باوجود آرٹیکل 63-اے آئین میں موجود ہے کیونکہ مقننہ نے مناسب نہیں سمجھا کہ مزید تبدیلیاں اور ترامیم کی جائیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے تمام سوالات اس نوعیت کے تھے کہ کسی بھی سوال کا اثبات میں جواب عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے کا باعث بنے گا، دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل کے متن میں کچھ نیا ڈال رہی ہے جو کہ آئین کا مینڈیٹ بھی نہیں ہے۔
جسٹس مظہر عالم خان نے کہا کہ آرٹیکل 63-اے کی پوری شق بہت سادہ ہے اور اور مجھے ایسی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی جس کی اس میں استعمال کی گئی زبان کے سوا کسی اور تشریح کی ضرورت ہو، ان کی نظر میں یہ شق اپنے آپ میں ایک مکمل ضابطہ ہے اور پارلیمنٹ کے رکن کے انحراف کے حوالے سے ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تشریح کو تسلیم نہیں کرتا اور اس طرح صدارتی ریفرنس کے ذریعے پوچھے گئے سوالات کا جواب نفی میں دیا جاتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ہونے والوں پر مزید پابندی لگا سکتی ہے۔
جسٹس مظہر عالم خان نے کہا کہ آرٹیکل 63-اے بذات خود انحراف کی صورت میں نتائج کی تفصیل فراہم کرتا ہے اور سزا کی فراہمی کو سختی سے سمجھا جانا چاہیے اور اس کا دائرہ کار نہیں بڑھایا جانا چاہیے۔
جسٹس مظہر عالم خان نے زور دے کر کہا کہ اگر قانون سازی میں خامیاں پائی جاتی ہیں تو ان کو مقننہ سے درست کرنا چاہیے لیکن ان کی اصلاح کرنا عدالت کا کام نہیں ہے، ایک عام اصول کے طور پر عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ معنی کی فراہمی کے مقصد سے کسی قانون کی زبان میں ردوبدل کرے۔
کسی آئینی شق کی تشریح کا مقصد مقننہ کی حقیقی نیت کا پتا لگانا کوئی شک نہیں، پھر بھی اس نیت کو مقننہ کے استعمال کردہ الفاظ سے دیکھنا ہوتا ہے، عدالت کا کام تشریح ہے، قانون سازی نہیں.
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ آرٹیکل 63-اے کسی ایوان کے کسی رکن کو اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کی خلاف ورزی سے منع نہیں کرتا جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، آرٹیکل 63-اے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی رکن کی طرف سے اس طرح کی ہدایت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو وہ ایوان کے رکن کے طور پر امور جاری رکھنے کے لیے نااہل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ بلاشبہ آرٹیکل 63-اے کے ذریعے حاصل کیا جانے والا مقصد ایک سیاسی جماعت کے ساتھ اراکین کی وفاداری کو یقینی بنانا ہے جس نے الیکشن میں رکن کی امیدواری کو اسپانسر کیا تھا۔
جسٹس مظہر عالم خان نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ یہ اعلان کر سکتی تھی کہ جس مسئلے پر ووٹنگ ہوئی ہے اس کا فیصلہ کرنے کے مقصد کے تحت ووٹنگ کے عمل کو بھی نظر انداز کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا، اس طرح یہ پارٹی ڈسپلن اور انفرادی ارکان کی سزاؤں کے درمیان توازن قائم کرنے والا عمل ہے، انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین پارٹی کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیے گئے ووٹ کو نظر انداز کرنے کے کسی بھی اقدام پر غور نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دلیل ناقابل قبول ہے کہ ایک خلا ہے جس میں سپریم کورٹ کی مداخلت کی ضرورت ہے کیونکہ آرٹیکل 63-اے کی دفعات سادہ، واضح اور غیر مبہم ہیں۔