پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کو اتوار کے روز برمنگھم میں اپنی رگوں پر اٹل یقین تھا کہ دوسرے حریف چاہے کچھ بھی کریں یا ان کی زخمی کہنی کی حالت کچھ بھی ہو مگر وہ گولڈ میڈل اپنے گلے میں ڈالیں گے۔
کامن ویلتھ گیمز کے جیولین فائنل میں ارشد ندیم کا 90.18 میٹر تک جیولین پھینکنے کا ریکارڈ توڑ عمل 56 برس میں چوتھائی تماشے میں پاکستان کا پہلا ٹریک اینڈ فیلڈ میڈل لے کر آیا اور اس لیے ان کے لیے ہر چیز جلدی میں تھی۔
یہ قابل فہم ہے کہ اس سے قبل پاکستان کا ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل کا انتظار مزید طویل ہوگیا تھا۔ مگر اتوار سے پہلے، 60 سال پہلے آخری بار ملک کا جھنڈا بلند کیا گیا تھا اور کامن ویلتھ گیمز کے ٹریک اینڈ فیلڈ وینیو پر قومی ترانہ 60 سال پہلے بجایا گیا تھا۔تحریر جاری ہے
ارشد ندیم، جنہوں نے سیشن کے دوران تین بار اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی جیت کے بعد آبدیدہ ہوگئے تھے لیکن قومی ترانے کی پیش کش کے اختتام پر ان کے چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ تھی اور جس تمغے کے وہ بہت خواہش مند تھے اور وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ تمغۃ حاصل کریں گے بالآخر انہوں نے گولڈ میڈل اپنے گلے میں ڈالا۔
ایک بار اسٹیج سے باہر، یہ ان کے ڈوپ ٹیسٹ کا وقت تھا اور ایک بار اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے تقریبا آدھی رات تھی.
پیر کی شام ارشد ندیم کے لیے اپنا سامان پیک کرنے اور ترکی کے لیے فلائٹ پکڑنے کا وقت تھا جہاں وہ اسلامک سالیڈیرٹی گیمز میں ایک اور گولڈ میڈل حاصل کرنے کا منتظر ہے۔
ایئر پورٹ کی طرف جاتے ہوئے ارشد ندیم نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایتھلیٹ کی جیت سیٹ کی زندگی میں ایک اور دن آنے والا ہے اور کہا کہ کونیا کے لیے اپنی پرواز میں پہلے ہی ان کو تاخیر ہو گئی ہے۔
ارشد ندیم اوریگون میں عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں حصہ لینے کے بعد انگلینڈ پہنچے تھے جہاں وہ پانچویں نمبر پر رہے۔
ان کا پہلا اسٹاپ کیمبرج یونیورسٹی تھا جہاں ڈاکٹر علی شیر باجوہ نے ان کی کہنی میں لگی چوٹ کا معائنہ کیا۔ وہ افتتاحی تقریب میں پاکستانی دستے کے مارچ کا حصہ نہیں تھے اور پیر کی اختتامی تقریب کے آغاز سے قبل ان کی فلائٹ تھی۔
ارشد ندیم نے کہا کہ میں نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے جو کہ میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
برمنگھم میں ارشد ندیم کی جیت کے بارے میں زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کا کوچ نہیں تھا۔ تاہم سلمان بٹ ارشد ندیم کو ٹیلی ویژن پر اپنی کارکردگی دکھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ وقت پر اپنا ایکریڈیٹیشن حاصل نہ کر سکے۔
سلمان بٹ کے لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ ارشد ندیم 90 میٹر کی رکاوٹ عبور کرنے والے جنوبی ایشیا کے پہلے جیولن پھینکنے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔
مگر سلمان بٹ نے ڈان کو بتایا کہ ارشد ندیم اس سے بھی بہتر کر سکتے ہیں اور مجھے یقین تھا کہ وہ یہ کر سکتا ہے۔
ارشد ندیم کو بھی یقین تھا کہ میں لڑے بغیر ہار نہیں ماننے والا، مجھے معلوم تھا کہ میں جیت جاؤں گا۔
ارشد ندیم نے سب سے طویل عرصے تک مقابلہ کیا لیکن ایسا لگا کہ گرینیڈین ورلڈ چیمپیئن اینڈرسن پیٹرز نے جب اپنے آخری تھرو سے جیولن کو 88.64 میٹر تک پہنچایا تو اس مقابلے کا رخ موڑ دیا تھا۔
لیکن ارشد ندیم نے فوری طور پر اس تھرو کا جواب دیا جس نے گیمز کا ریکارڈ قائم کیا اور گولڈ میڈل پاکستان کے نام کیا۔
ارشد ندیم کی اس عالمی کامیابی نے ملک بھر میں وسیع تقریبات کو جنم دیالیکن سب سے زیادہ خوشی کا جشن ارشد ندیم کے آبائی شہر میاں چنوں میں تھا جہاں خاندان کے تمام افراد ایک ٹیلی ویژن سیٹ کے گرد جمع ہوکر ارشد ندیم کی کارکردگی دیکھ رہے تھے۔
ان کے بھائی علیم ارشد نے ڈان کو بتایا کہ یہ خاندان کے لیے بہت اچھا لمحہ تھا مگر اسی لمحے ہم اس بارے میں فکر مند تھے کہ اس کی کہنی کس طرح بھاری پٹی میں جکڑی ہوئی ہے۔
ارشد ندیم نے انکشاف کیا کہ وہ بہت تکلیف میں تھے لیکن جیتنے کی خواہش کے لیے وہ تمام درد بھول گئے۔