وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے شہباز گِل پر تشدد کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہٹے کٹے ہیں، ان پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا یہ صرف پروپیگنڈا ہے اور جان بوجھ پر کہانی بدلنے کا یہ بھونڈا طریقہ ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘میڈیا بھی اس پراپیگنڈے کو چلا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی چلا رہا ہے، شہباز گل کے خلاف ایک مقدمہ ہے، جن کو عمران خان نے ٹرانسکرپٹ دے کر ‘اے آر وائی نیوز’ پر ایک بیپر دلوایا، اس میں اداروں کے درمیان اور اندر بغاوت پر اکسایا گیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آئین کے تحت یہ ریڈ لائنز سے تجاوز ہے، شہباز گِل نے بغیر کسی سوچ اور تحقیق کے عمران خان کے کہنے پر اسکرپٹ پڑھ کر اے آر وائی نیوز پر بیپر دیا، جس کے اوپر ان کے خلاف مقدمہ بنا یہ بات بھولنی نہیں چاہیے’۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ کہ ‘اس پر ان کے خلاف قانون کے مطابق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج ہوئی جس کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا اور تفتیش شروع ہوئی، اب اس اسٹوری اور مقدمے کی وجوہات سے نظر ہٹانے کے لیے ایک پروپیگنڈا جاری ہے کہ تشدد ہو گیا، جنسی تشدد ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تشدد کسی پر بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن یہاں تشدد نہیں ہوا بلکہ پروپیگنڈا چل رہا ہے، اور وہ اس وقت چلتا ہے جب کیمرا سامنے آتا ہے، شہباز گِل کے سامنے جب کیمرا آتا ہے تو وہ ایکٹنگ شروع کردیتے ہیں، اور سانس میں تکلیف کی شکایت شروع کردیتے ہیں جس کو سب چلا رہے ہیں’۔
مریم اورنگزیب نے شہباز گِل پر تشدد کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا یہ صرف پروپیگنڈا ہے، اور پھر ایک غلط ویڈیو جو چکوال میں ایک ریپسٹ کی ہے، جس نے بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، اس کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے اس پر تشدد کیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ آدھی ویڈیو چلا کر کہہ رہے ہیں کہ یہ شہباز گِل کی ویڈیو ہے، یہ عمران خان نے شروع کیا، وہ بیانیہ اس لیے بنایا کہ اپنے جو اعمال ہیں کہ عمران خان نے شہباز گل کو اسکرپٹ دیا، اداروں کے خلاف بولنے کا، جس کا کیس عدالت میں چل رہا ہے اور اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں، اس طرح کی غلط ویڈیو اور تصاویر چلانا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے’۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ‘پھر اس پروپیگنڈے کو آزادیِ اظہار رائے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، شہباز گل پر تشدد نہیں ہوا، جس کے حوالے سے عدالتی حکم پر انکوائری ہو رہی ہے جس کے تمام ثبوت وزیر داخلہ بہت جلد میڈیا کے سامنے پیش کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی ہے، اخلاق سے گری ہوئی آدھی ویڈیوز چلا کر شہباز گل کی ویڈیو کے ساتھ اس کو جوڑ دیا گیا، یہ بیانیہ عمران خان نے شروع کیا ہے، اصل میں مقصد ہے کہ کہانی بدل دو، سوشل میڈیا پر لسبلیہ ہیلی کاپٹر کے شہیدوں کے خلاف گندی اور گھٹیا مہم چلاؤ، پکڑے جائیں تو کہانی بدل دو، آپ شہباز گِل کو اسکرپٹ دو اور پکڑے جاؤ تو کہانی بدل دو’۔
مریم اورنگزیب نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی نے تشدد کی ویڈیو یا تصاویر دیکھیں؟ یہ معاملہ حکومت کا نہیں ہے، عدالت میں کیس ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے اس موقع پر شہباز گل کی تازہ ویڈیو بھی چلائی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہباز گل کو پولیس اہلکاروں کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ‘عمران خان نے اپنی فارن فنڈنگ سے نظر ہٹوانے کے لیے یہ مہم چلوائی، جس شخص کو سانس نہ آرہا ہو، جس پر تشدد کر دیا گیا ہو، جو غلط ویڈیو میں آپ کو دیکھایا جا رہا ہے لیکن ایک گھنٹہ قبل کی ویڈیو ہے اس میں دیکھیں کہ جس شخص کو مارا پیٹا گیا ہو، کیا یہ وہی شخص ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ جان بوجھ پر کہانی بدلنے کا یہ بھونڈا طریقہ ہے اور اتنی بے شرمی ہے کہ وہ ویڈیو چلائی جا رہی ہے جو میں آپ لوگوں کی اسکرینز پر نہیں چلا سکتی جس کو شہباز گِل کے ساتھ منسلک کیا جارہا ہے، پھر ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، شہباز گِل ہٹے کٹے پولیس کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں، کتابیں پڑھ رہے ہیں، بیڈ پر بیٹھے ہوئے ہیں، چہل قدمی کر رہے ہیں’۔
مریم اورنگزیب نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ شہباز گل کی اصل صورت حال ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کہاں گیا آکسیجن کا ماسک؟ کیونکہ اس تحقیقات کا حصہ نہیں بننا، جس کے اندر عمران خان کا نام ہے اور پوری جماعت نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میڈیا سے میری درخواست ہے کہ اس پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں، یہ کسی طرح بھی اظہار رائے کے اندر نہیں آتا، آپ لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، یہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے، اور جب لوگ پکڑے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اظہار رائے پر پابندی لگا دی، یہ اظہار رائے ہے کہ جھوٹی ویڈیو چلائیں’۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ‘آپ پمز ہسپتال کے باہر آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ملنے کی اجازت دی جائے، آپ کے پاس کورٹ کے آرڈرز ہیں؟ ہم نے ان کے 4 سالہ دور میں زیر حراست رہنماؤں سے ملنے کے لیے عدالت سے آرڈرز لیے ہیں، اس کے باوجود ہمیں ملنے نہیں دیا جاتا تھا، آپ کہتے ہیں کہ ریڈ کارپٹ بچھائیں کیونکہ بادشاہ سلامت عمران خان آ گئے ہیں اور پمز کے دروازے کھول دیے جائیں کیونکہ وہ قانون سے بالاتر ہیں’۔