انٹربینک مارکیٹ میں آج دن کے آغاز میں ابتدائی تجارت کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 2 روپے 62 پیسے کا اضافہ ہوگیا۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ روز 232 روپے 12 پیسے پر بند ہونے کے بعد روپیہ آج صبح 11 بج کر 30 منٹ پر 1.12 فیصد اضافے کے ساتھ 229روپے 50 پیسے فی ڈالر پر ٹریڈ کررہا تھا۔
ڈالر کی قدر میں کمی کا یہ رجحان جاری رہنے امکان ہے اور قیمت 229.50 کی موجودہ سطح سے نیچے بھی آ سکتی ہیں۔
اس حوالے سے جنرل سیکریٹری ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دراصل اسحٰق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی کی وجہ سے مارکیٹ میں رجحان میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے‘۔تحریر جاری ہے
انہوں نے کہا کہ ’ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے فنڈز کے اجرا کی خبروں کے باوجود روپے کی قدر گر رہی تھی، مجموعی طور پر مارکیٹ میں منفی رجحان نظر آرہا تھا، اب ڈالر کی قدر کو کم رکھنے اور معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے حوالے سے اسحٰق ڈار کی ساکھ کے سبب بہتری کی امید ہے‘۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری قرض پروگرام کی شرائط کی وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال اب مختلف ہے، ان شرائط کے تحت پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی کرنسی ایکسچینج نظام پر اتفاق کیا ہے لہٰذا اسحٰق ڈار پہلے کی طرح اس صورتحال سے نمٹ نہیں سکتے، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی طویل مدتی پالیسیاں متعارف کراتے ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ 4 روز میں پاکستان کے قرضے میں تقریباً ایک کھرب روپے کی کمی ہوئی ہے، یہ بہتری بہت خوش آئند ہے اور کافی وقت کے بعد اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے قیاس آرائیاں کرنے والوں جیسے ریاست مخالف عناصر کو فائدہ ہوا، حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ مثبت رجحان اب تبدیل نہ ہو‘۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک کو طویل عرصے سے زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے، پاکستان کو رواں سال 30 سے 40 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ تاحال ہمارے پاس صرف 10 ارب ڈالر کا انتظام ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو درآمدات کو کم کرنا چاہیے اور برآمدات میں اضافہ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت اور امیگریشن پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ ان سے ملک کے زرمبادلہ اور ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے۔