وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں کہا ہے کہ جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں داخل ہوں گے تو آواز اٹھانا ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور ایسا حل نکالے جو نہ صرف ہمارے لیے تریاق ہو بلکہ جو مرض ہمیں دہائیوں سے لاحق ہیں ان کا بھی بندوبست کرلیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت ہو رہی ہے، کچھ سوالات مرتب کیے گئے ہیں جن کے جوابات سپریم کورٹ میں ڈھونڈے اور دیے جائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں، بار کونسلز سمیت متعدد فریقین ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کل شروع ہونے والا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے مثبت و منفی اثرات موجودہ نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ملک کے سیاسی اور عمومی حالات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔تحریر جاری ہے
ان کا کہنا تھا کہ خوش آئند بات ہے کہ 9 ججز کا بینچ تشکیل دیا گیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمینٹیرینز یا سیاسی کارکنان، عدلیہ کا نام لے کر تنقید کرتے ہیں، میں ان کا نام نہیں لیتا جن پر تنقید ہوتی ہے لیکن ان کا نام لیتا ہوں جن پر تنقید نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اعلیٰ عدلیہ خود پوچھے کہ جسٹس منیر پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس کارلینیئس پر کیوں نہیں ہوتی، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ریاض شیخ پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی، ناظم صدیقی پر کیوں نہیں کی جاتی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی قریب میں ججز کا نام لے کر تنقید کی جاتی ہے، پاناما کے ججز پر تنقید کی جاتی ہے جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم آواز اٹھائیں کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے جن میں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام ہے لیکن ناصر الملک اور تصدق جیلانی کا نام نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ میرا حق نہیں بنتا کہ اس تفریق کی وجوہات ایوان میں بیان کروں، یہ چیزیں میں عدلیہ پر چھوڑتا ہوں کہ کن لوگوں کے نام لیے جاتے ہیں کن کے نہیں لیے جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں ایک بات کی گئی کہ کیوں نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر بات کرلی جائے کہ کیا وہ ٹھیک تھی یا غلط۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63-اے کو ری رائٹ کیا، یہ ان کا کام نہیں تھا اور جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کر رہے ہیں یہ اس کا براہِ راست اثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورا ملک سیاسی، معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے، یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کے براہِ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت سے شروع ہونا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اعترافات موجود ہیں کہ ہم نے اس میں مداخلت کی، عدلیہ کے اعترافات بھی موجود ہیں کہ اس کیس میں تجاوز ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت، شاہ محمود قریشی بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے توسط سے میری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ پوری کورٹ کا بینچ بنا کر پاناما سے شروعات کریں، اس ملک اور خصوصاً سیاسی برادری کے ساتھ آئینی اور قانون کے لبادے میں جو زیادتی ہوئی ہے، ایک ایسے شخص کو مسلط کیا گیا کہ جس نے 4 سے 5 سال کے اندر ملک کو تہہ و بالا کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کیا گیا لیکن ساتھ ہی حکومت تحلیل کردی گئی اور جس نے کی وہ آج بھی صدارتی محل میں بیٹھا ہوا اور آئین کی دفہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹھیک ہے کہ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کردی لیکن بجائے اس کے باقی قانونی مراحل بھی اسی طرح طے ہوتے 63-اے کی دوبارہ تشریح کردی گئی پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں جس طرح تحلیل ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں سیاسی وجوہات پر تحلیل کی گئیں یا عوامی مفاد میں، یا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کی گئی، یہ تمام سوالات جواب چاہتے ہیں، جو ہمارے پاس تو ہے لیکن انصاف کا ترازو اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تنقید نہیں کرنا چاہتا کہ بینچ میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کہ جن کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے لیکن پوری کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کو سنے تو گزشتہ 8 ماہ میں جو کچھ ہوا اسے ری ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے اسے عدالت بلا رہی ہے، اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجاؤ وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، قانونی و آئینی طور پر کہتے ہیں وہ نہیں آتا جبکہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ہم ان چیزوں کا ازالہ نہیں مانگتے، ہم صرف چاہتے ہیں کہ یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے، ملک کے وسائل سے 22 کروڑ عوام استفادہ کریں، اشرافیہ کے چند ہزار افراد نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کردار کشی ہوتی ہے، عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ایم این اے پتا نہیں کتنے کروڑوں روپے لیتے ہیں، کتنی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں, ہم باہر نکلیں تو باہر تانگہ تک نہیں کھڑا ہوتا جبکہ یہاں اشرافیہ میں ایسے ایسے لوگ ہیں جن کے لیے 15، 15 منٹ ٹریفک روک دی جاتی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پورا پاکستان سن لے ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے، ہم کروڑوں اربوں روپے نہیں لیتے، اپنے خرچے پر آتے ہیں، یہاں ایسے بھی ایم این ایز ہیں جو پارلیمنٹ لاجز سے ایوان میں پیدل آتے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن یہاں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کا اسٹائل بادشاہوں والا ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، جب وہ سڑکوں پر آتے ہیں تو سڑکوں پر کرفیو لگ جاتا ہے۔