سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سےمتعلق ازخود نوٹس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اورخیبرپختونخوا اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ کے اکثر ججز نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس وقت 48 گھنٹوں کے بعد پنجاب کی اسمبلی ختم ہوئی، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے،ایسی صورتحال خیبرپختونخوا میں ہوئی جہاں گورنرنے اسمبلی ختم کی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی 14 اور کے پی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی،پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جب گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ کی ہو تو پھر بھی مقررہ وقت میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمشن گورنر اور صدر کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔کے پی کی حد تک گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، گورنر کے پی نے انتخابات کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی۔
صدر نے 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا، اس صورتحال میں الیکشن کمشن نے اپنا کردار ادا نہ کیا،الیکشن کمیشن اب صدر کے ساتھ مشاورت کرے اور معاملے کو حل کرے،صدر الیکشن کمیشن کے ساتھ ایڈوائس کے بعد پنجاب میں الیکشن کمشین کا اعلان کرا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے،9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے، یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کرے گا۔
الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں تمام سہولتیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کی پابند ہے،
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ لکھا۔
گزشتہ روز چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کیس میں اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کرانا لازم ہے۔ آئین کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے۔ پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔
انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ ٹھوس وجوہات کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دےگا اس کا تعین کرنا ہے، صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نہ دے رہی ہے،
ان کا کہنا ہے کہ تین ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلی عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔