احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 19 جون تک ضمانت منظور کر لی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں 3 روز کی توسیع کرنے اور انہیں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کے بعد سابق وزیر اعظم اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت اسلام آباد میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، درخواست ضمانت پر جج محمد بشیر نے سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے کیا حکم دیا ہے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین دن کا حکم دیا ہے کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کر لیں۔
جج محمد بشیر نے پوچھا کہ تو آپ نے آج ہی درخواست دائر کر دی؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے تیار کر رکھی تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو دائر کر دیں گے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ 17 تاریخ کو انسداد دہشت گردی عدالت آنا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ 17 جون تک ضمانت دی جائے۔
عدالت نے عمران خان کی 5 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 19 جون تک ضمانت منظور کر لی۔
نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف عدالت کے روبرو ہیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 17 جون کو ہفتہ کا دن بن رہا ہے، ہفتے کے علاوہ کوئی اور دن رکھا جائے، ہفتے والے دن ریکارڑ روم بند ہوتا ہے۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 19 جون تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں 3 روز کی توسیع کردی اور ساتھ ہی انہیں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔
ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے القادر ٹرسٹ میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عمران خان اپنے وکلا خواجہ حارث و دیگر کے ساتھ عدالت پیش ہوئے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل، لا افسران اور نیب قانونی ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔
خواجہ حارث نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں، درخواست گزار کی پیشی پر سیکیورٹی مسائل بھی ہیں اور ان کے آنے پر کروڑوں روپے سیکیورٹی کے نام پر خرچ ہوتے ہیں۔
جسٹس میاں گل اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا آپ نیب کے سامنے شامل تفتیش ہوئے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب کے سامنے ہم شامل تفتیش ہوچکے ہیں۔
چنانچہ عدالت عالیہ نے عمران خان کی تین روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 3 ورکنگ دنوں میں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کا حکم بھی دیا۔
دوسری جانب احتساب عدالت میں اسی کیس کے سلسلے میں تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کیس میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی گرفتاری درکار نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست کو غیر مؤثر قرار دے دیا۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے این سی اے تحقیقات، 19 کروڑ پاؤنڈز اسکینڈل کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے 13 مئی کو ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے نیب، چیئرمین نیب کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کی۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے نیب کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، انہوں نے کہا کہ نیب نے بشریٰ بی بی کے وارنٹ جاری کیے، یہ بدنیتی ہے تاکہ نیب کو دبایا جائے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ نہ ہم نے چھاپہ مارا، نہ حملہ کیا، نہ بشریٰ بی بی کے وارنٹ جاری کیے گئے، ہماری کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں، ہم نے بشریٰ بی بی کے وارنٹ کبھی جاری نہیں کیے، جب وارنٹ ہی نہیں تو درخواست ضمانت خارج کردی جائے۔
عمران خان اور ان کے اہلیہ کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے یہی سننا ہے کہ نیب کتنا پارسا ہے تو آج سے نہیں سپریم کورٹ کے حکم نامے سے شروع کریں گے۔
وکیل نے کہا کہ نیب کی جانب سے انکوائری میں طلبی کا ایک نوٹس بھی نہیں بھیجا گیا، انکوائری تحقیقات میں تبدیل ہوئی، بشریٰ بی بی عدالت کے حکم پر اپنے شوہر کے ساتھ نیب کے دفتر گئیں تو نیب نے عمران خان کو اندر بلایا اور بشریٰ بی بی کو کہا آپ کا تو وقت ہی نہیں ہے، جس پر بشریٰ بی بی 6 گھنٹے گاڑی میں بیٹھ کر عمران خان کا انتظار کرتی رہیں۔
عدالت میں تفتیشی افسر میاں عمر ندیم نے بیان دیا کہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے کسی قسم کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے گئے نہ ان کی گرفتاری کی ضرورت ہے۔
تفتیشی افسر کے بیان کے بعد عدالت نے بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت غیر مؤثر قرار دے کر انہیں جانے کی اجازت دے دی۔
خیال رہے کہ 23 مئی کو نیب نے عمران خان سے اپنے دفتر میں تقریباً 4 گھنٹے پوچھ گچھ کی اور انہیں آئندہ سماعت پر ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت دی تھی، ذرائع کے مطابق نیب حکام نے عمران خان کے جوابات کو بھی ’غیر تسلی بخش‘ قرار دیا تھا۔
تحقیقات کے سلسلے میں پیشی کے دوران دیے ایک تحریری جواب میں عمران خان نے ملک ریاض کے ساتھ خفیہ معاہدے کی ذمہ داری بھی اپنے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر ڈال دی تھی۔