دسمبر 2022کی بات ہے کہ جب راقم الحروف ابوظہبی میں کھیلے جانے والی ٹی10کرکٹ لیگ کی کوریج کیلئے شیخ زید سٹیڈیم پہنچے تو سٹیڈیم میں داخلے کیلئے گیٹ پر ”وشال بھاٹیا“ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے میرا زبردست ”سواگت“ کیا اور بعد ازاں انہوں نے اکریڈیشن کارڈ دیا اور یوں سیکورٹی اہلکار کو کارڈ دکھا کر سٹیڈم میں داخل ہوئے۔ وشال سے بات چیت ہوئی ایک دوسری کی خیریت دریافت کی پھر کچھ ہی دیر میں شیخ زید سٹیڈم میں واقع میڈیا سنٹر پہنچ گیا کچھ دیگر انٹرنیشنل صحافیوں سے اپنا تعارف کروایا ہاتھ ملایا اور پھر یوں پریس باکس میں براجمان ہو گئے۔ اس دن دو میچز کھیلے گئے خوب انجوائے گیا دیگر صحافیوں سے بات چیت ہوئی اور میچ پر تبصرہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔پھر کچھ گھنٹہ دو بعد ڈنر کیا اور یوں سٹیڈیم کے دوسرے سٹینڈ کی جانب باہر کو نکل گئے جس کا راستہ پریس باکس سے تھا۔۔ بھارتی صحافی”سارو گپتا“ سے لائٹر موڈ میں بات چیت ہوئی جس میں ہم نے ایک دوسرے کے ”دیسوں“ کے بارے بات چیت کی اس کے بعد بھارتی صحافی سارو گپتا نے سوال پوچھا کہ امارات آ کر کیسا لگا۔۔جس پر جواب دیا کہ اگر دبئی کا نام بھارت رکھ دیا جائے تو غلط نہ ہو گا تو بھارتی صحافی ہنس دئیے اور بولا کیوں بھائی ایسا کیوں جس پر میں نے کہا کہ جہاں دیکھو بھارتی دکھتا ہے ہوٹل ہو یا پارک، کوئی بزنس سنٹر ہو یا کوئی اور جگہ بھارتی ہی نظر آئے گا اور خاص طور پر ”کیرلہ“ والے جس پر بھارتی صحافی نے کہاکہ بھائی آپ کے پٹھان بھائی تو ہر طرف دکھتے ہیں جس پر میں نے جواب دیا ہاں بالکل لیکن بھارتی بہت زیادہ ہیں جس پر انہوں نے کہا ہاں یہ بات صحیح ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ بھائی ہمارے دیشوں میں بسنے والے بھارتی اور پاکستانیوں نے ہی یہ دبئی بنایا شیخ تو صرف مزے کر رہے ہیں جس پر میں نے ان سے اتفاق کیا کیونکہ جتنے بھی عمارات اور دیگر سنٹرز وغیرہ ہے سکول ہوں یا کالجز، کوئی بھی بزنس سنٹر ہو ہر طرف ہی بھارتی، پاکستانی، بنگالی، اور سری لنکن کے علاوہ دیگر ملکوں کے مزدور کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور شیخ ان پر حاکم بیٹھا ہے بہر حال اگر دیکھا جائے تو ایسا ہی ہے لیکن پھر ہم پریس باکس کی طرف آئے اور یوں میچ ختم ہوا اور وشال بھاٹیا نے کہا کہ ابھی پریس کانفرنس ہو گی اس لئے میڈیا سنٹر تشریف لے آئیں جس پر ہم میڈیا سنٹر کی طرف لپکے۔۔۔پریس کانفرنس میں ابھی کچھ وقت تھا اس لئے وہاں پر موجود زیادہ تر صحافیوں کی تعداد بھارتی صحافیوں کی تھی جس پر ان سے بات چیت شروع ہوئی۔۔ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ بھارتی ٹیم ایشیاء کپ میں شرکت کیلئے پاکستان آئے گی اور پاکستان ورلڈ کپ میں شرکت کیلئے بھارت آئے گی جس پر میں نے ان سے فوراً ہی کہا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اس لئے ہماری ٹیم تو کھیلنے کیلئے بھارت ضرور جائے گیجس پر انہوں نے کہا کہ میری یہ بات یاد رکھیں کہ بھارت ایشیاء کپ کھیلنے کیلئے پاکستان نہیں جائے گی جبکہ آپ کی یعنی پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے ضرور بھارت آئے گی۔۔۔بعد ازاں ایشیاء کپ کھیلنے کی جب باری آئی تو یونہی ہوا بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کھیلنے نہیں آئی لیکن پاکستانی شاہین ورلڈ کپ کھیلے کے لئے لاہور سے بھارتی روانہ ہو گئی جس کے سبب پہلے وہ دبئی پھر بھارت جائیگی اور آج صبح پاکستانی شاہین دبئی پہنچ گئے پھر وہ بھارت کو روانہ ہو جائے گی۔بھارتی صحافی کو جب میں نے یہ جواب دیا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کھیلنے بھارت آئے گی اور ہم پر امن لوگ ہیں اس پر وہاں میڈیا سنٹر میں دیگر بھارتی صحافی ہنس پڑے اور مجھے انہوں نے کہا کہ واہ کیا پولٹیکل انسر دیا آپ نے جس پر میں نے انہیں کہا کہ اس میں سیاسی بیان کی کوئی بات نہیں کھیل کو کھیل سمجھنا چاہئے اس میں سیاست کو نہیں لانا چاہئے بہر حال جب نجم سیٹھی صاحب پی سی بی کے بڑے تھے تو انہوں نے بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھارت نہ جانے کا کہا اور وہ آخر تک ڈٹے رہے کہ ایشیاء کپ اگر ہو گا تو پاکستان میں ہی ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا اور کچھ میچ پاکستان میں جبکہ دیگر میچز سری لنکا میں کھیلے گئے اور بھارت نے اپنے بات منوائی اور ہو سکتا ہے نجم سیٹھی کو اسی کارن پی سی بی کے بڑے عہدے سے ہٹایا گیا اور تو اور بھارت نے اپنے میچز کیلئے ”ریزرو“ دن بھی رکھا بہر حال ایشیاء کپ بھارتی مرضی کے مطابق ہوا اور وہ جیت بھی گئے لیکن اب دیکھنا ہو گا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ میں کیسا کھیلتی ہے۔ یہاں یہ بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ ایک طرف تو پاکستان نے لچک کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ایشیاء کپ میں بھارت کی مان لی گئی لیکن اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو بھارت اپنی مرضی ہر جگہ مسلط کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کی رائے بھی لی گئی تو زیادہ تر لوگوں نے یہی کہا کہ کھیل میں سیاست کو بالکل نظر انداز کرنا چاہئے اور آئی سی سی کو اس معاملے پر اپنا دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا کہ جو سیریز اور اس قسم کا کوئی بھی بڑا ایونٹ اگر کہیں پر بھی کھیلا جائے دیگر ٹیموں کو اس میں ضرور شمولیت اختیار کرنی ہو گی ورنہ ان پر جرمانہ عائد کرنا چاہئے تاکہ تمام ٹیموں کو برابری کا تاثر دکھنے کو ملے۔