گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی براہِ راست سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ چیف جسٹس اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے۔ پہلے آئین پھر قانون اور پھر نظیریں آئیں گی۔جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں۔ تمام ججز اگر مجھے فل کورٹ اجلاس بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاوں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔ وہ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی براہِ راست سماعت کے دوران ریمارکس د ے رہے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر ہو گا، اختیارات کو کم نہیں بانٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہو گا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے جبکہ کچھ ایسا نہیں سمجھتے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نا قابل احتساب کیسے ہو سکتا ہے، اگر میرا کنڈکٹ بہت زیادہ نا قابلِ قبول ہو جائے تو کیا ہو گا۔ اس ملک کو فرد واحد نے تباہ کیا ہے، چاہے وہ مارشل لا ہو یا کوئی اور۔ وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا، پارلیمنٹ نے اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے، جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتِ حال دیکھنا بھی ضروری ہے، پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے؟ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کروں گا، ہماری پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے میٹنگ ہوئی جس میں سینئر جج سردار طارق مسعود بھی موجود تھے، وکلاء نے شکایت کی کہ ان کی بات نہیں سنی جاتی۔کہا گیا کہ جب وکلاء بات کر رہے ہوں انہیں بات مکمل کرنے دی جائے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔ وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس ایکٹ کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہے، راولپنڈی بار کیس میں آئینی ترمیم کو دیکھا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے تو بات ختم ہو گئی، آپ کی دلیل ہے کہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائے تو ٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا لوگوں کے لیے ہوتی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لئے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیواں کے کیسز کو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟ قانون سازی انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ یہ میرا کیس نہیں پوری قوم کا ہے، پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں، عوام کی منشاء آئین کی بنیاد ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اپنا کیس لڑیں، آپ قوم کے نمائندہ نہیں نہ آپ بول سکتے ہیں، آپ فریق بنائے بغیر کسی کے خلاف الزام نہیں لگا سکتے۔ عدالت میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں سوال قانون سازی کے اختیار کا ہے، آئین میں ٹیکنیکل اصطلاح ہے۔مقننہ قانون سازی کے اختیار سے تجاوز کرے تو یہ فراڈہے، پارلیمنٹ کل بھلے کہے سپریم کورٹ اس قانون کو ترجیح دے یا اس کو، سوال یہ ہے کیا پارلیمنٹ اتنی باریکی سے سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کر سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو کمنٹری آپ پڑھ رہے ہیں اس سے 1973 کے آئین کی رو سے بتائیں یہ ایکٹ کیسے متصادم ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے، 45 منٹ سے آپ کو سن رہے ہیں، اب دلائل ختم کیجئے، سننا تو آپ کو پورا دن چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں، کوئی دلیل رہ جائے تو تحریری جمع کرائی جا سکتی ہے، مظہر صاحب کے سوال پر بتا دیں کہ کون سی آئینی شق متاثر ہوئی۔عدالت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2 سوالات اٹھتے ہیں، ایک یہ ہے کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق قانون سازی کی مجاز ہے، پھر بتائیں کہ ایکٹ کی کون سی دفعہ کس آئینی شق سے متصادم ہے، ایک سوال اہلیت اور دوسرا تضاد کا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ جتنا باریکی میں جائیں گے زیادہ وقت لگے گا، اس کیس کو آج کے بعد نہیں چلنا، جتنا وقت آپ لیں گے باقی وکلاء کو کم ملے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنی درخواست کے مطابق مان رہے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے لئے با اختیار ہے، جسٹس اعجاز کے دوسرے سوال کا جواب دے دیں بس۔پارلیمنٹ کو قانون سازی سے پہلے اس کا مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہے، کیا پارلیمنٹ عوام کی بہتری کے لئے ہونے والی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی؟ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جاسکتی ہیں۔چیف جسٹس نے جو بات کی وہ وکلاء کی طرف اشارہ تھایاسابقہ ججز کی طرف کیونکہ ماضی میں ایسا ہوا کہ آمر آیا اور اس نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور اعلیٰ عدالت نے ان کے اس اقدام کو تکنیکی طور پر ایل ایف او کے ذریعے صحیح قرار دیا جس کے سبب سابقہ ڈکٹیٹروں نے کئی کئی سال ملک پر حکومتیں کی اس لئے آئندہ دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر خدانخواستہ ملک میں پھر ایسی صورتحال بن جائے تو کیا اعلیٰ عدالت ان کے اس اقدام کو مانے گی یا انکار کریگی یہ تو آنے والے وقت ہی بتا ئے گا۔
