جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کوئی انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے، بلاول کی گفتگو اور بیانات میں وہی فرق نظر آرہا ہے جو بزرگ اور بچے کی سوچ میں ہوتا ہے اور ہماری سیاست بچوں کے حوالے نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میاں صاحب تشریف لائے تھے، ہماری جماعت کے کافی حادثات ہوئے تو ان کے حوالے سے دعا کے لیے بھی آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مل کر یقیناً لمبی جدوجہد کی ہے، ہم حکومت میں بھی اکٹھے رہے ہیں، پالیسیاں بھی اکٹھے بناتے تھے اور پچھلی ناجائز حکومت کے خلاف تحریک میں بھی اکٹھے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آج یہ طے کیا ہے کہ آنے والے مستقبل میں بھی ہم مل کر چلنا چاہیں گے اور انتخابی مراحل بھی باہمی مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیں گے، باقی پارٹیوں سے بھی ہم رابطے میں رہیں گے اور پی ڈی ایم میں ہم آہنگی اور یکجہتی کا جو ماحول بنا تھا، اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ جس پارٹی کا جہاں حق بنتا ہے، کسی کو اس کی پارٹی کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ملک کے خلاف سازشیں اور فتنے اب بھی موجود ہیں اور یہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں، اس کے لیے سب کو سوچنا ہو گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور انتخابی اتحاد کا پیپلز پارٹی بھی حصہ ہو گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کوئی انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کرنا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے معاملات بن جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، اگر نہیں بنتے ہیں تب بھی ہمیں انتخابی مہم میں کوئی تلخی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
بلاول کے حوالے سے پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انہیں پتا نہیں ہے کہ ماضی میں ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سنا، کتنی دھمکیاں آئی ہیں کہ اگر میری اکثریت نہ آئی تو ہم اس الیکشن کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ باتیں ہم سب سن چکے ہیں اور ہماری سیاست بچوں کے حوالے نہیں ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی جانب سے بزرگوں کو ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھنے کے مشورے پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ پہلا پیغام تو انہوں نے اپنے والد کو دیا ہے اور اگر ان کی والدہ حیات ہوتیں تو پھر کیا کرتے، بلاول کی گفتگو اور بیانات میں وہی فرق نظر آرہا ہے جو بزرگ اور بچے کی سوچ میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ہمیں پارلیمان سے باہر کرے تو پھر اس ملک میں سکون نہیں آئے گا، ایک الیکشن تسلیم نہیں ہوا اور متنازع ہو گیا تو کیا پاکستان اس کا متحمل ہے کہ اگلا الیکشن بھی متنازع ہو جائے، تو ہم پاکستان کا اگلا الیکشن متنازع نہیں ہونے دینا چاہتے۔
جمعیت علمائے اسلام پر حملوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ باتیں کہیں تو آپ حضرات نے میری ساری گفتگو کا خلاصہ یہ نکالا کہ شاید ہم الیکشن کو ملتوی کرانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں تھی، لاہور میں پرسکون ماحول ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالکل مختلف صورتحال نظر آئے گی، مجھے میرے مخالف امیدوار ملے ہیں اور وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم انتخابی مہم تو نہیں چلا سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے، سیاسی قوتوں اور قائدین تک ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے، باقی جو فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اس کے مطابق انتخابات ہوں گے اور ہم اس میں بھرپور حصہ لیں گے۔
امریکی سفیر سمیت غیر ملکی سفرا کی سیاسی قیادت سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کسی ملک کے سفیر کے ساتھ ملاقات سے انکار نہیں کرتے اور الیکشن کے دنوں میں بھی سفرا ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن امریکی سفیر جب ملتا ہے تو اس کے کچھ اور معنی لیے جاتے ہیں جیسے کہ ایک عالمی قوت پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس میں مداخلت کا عندیا ملتا ہے جس کی ہم نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔