سابق ’مس انڈیا‘ اور ’مس یونیورس‘ بولی وڈ اداکارہ سشمیتا سین نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ماضی میں آٹو امیون ڈیزیز یا خودکار مدافعتی بیماری کا بھی شکار رہ چکی ہیں۔
سشمیتا سین نے حال ہی میں ایک یوٹیوب انٹرویو میں زندگی کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ نہ صرف عارضہ قلب میں مبتلا رہ چکی ہیں بلکہ وہ خودکار مدافعتی بیماری کا بھی شکار رہی ہیں۔
انٹرویو کے دوران سشمیتا سین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جب 1994 میں وہ مس یونیورس بنیں تو انہیں میکسیکو ڈنر پر بھیجا گیا لیکن انہیں بطور مہمان خاص اس طرح کی پرتعیش اور پرتکلف پارٹی میں کھانا کھانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، انہیں یہ تک علم نہیں تھا کہ ٹیبل پر مہمانوں کے سامنے کس طرح بیٹھ کر کس انداز میں کتنا کھانا چاہئیے۔
انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس وقت ان کی عمر محض 18 سال تھی اور انہیں درست انداز میں انگریزی بھی نہیں بولنا آتی تھی اور انہیں بطور مس یونیورس اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے ساتھ ڈنر پر بھیجا گیا، جہاں وہ تقریب شروع ہونے سے قبل ہی بھوک کا شکار ہوگئیں اور انہوں نے اپنے مینیجر کو کھانا لانے کا کہنا شروع کردیا۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2023 میں جب انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا تب آپریشن تھیٹر کے بستر پر وہ ڈاکٹر کے سامنے مسکرا رہی تھیں، کیوں کہ 6 ماہ قبل ہی انہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کسی طرح کا کوئی عارضہ قلب نہیں۔
پروگرام کے دوران سشمیتا سین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ کافی عرصے تک آٹو امیون ڈیزیز کا شکار رہی ہیں، جس وجہ سے ان کی یادداشت کمزور پڑ چکی تھی اور وہ جلد میں بہت ساری باتیں بھول جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سلیبرٹی ہونے کے ناطے انہیں کمزور یادداشت کی وجہ سے شرمسار بھی ہونا پڑتا تھا لیکن چوں کہ وہ اپنے قابو میں نہیں تھیں، کمزور یادداشت انہوں نے جان بوجھ کر نہیں کی تھی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ ہر دو منٹ بعد ہر ملنے والے شخص سے بار بار ان کا نام پوچھتی تھیںِ، جس پر ان سےملنے والے افراد بھی حیران رہ جاتے تھے کہ انہیں ابھی تو نام بتایا تھا پھر وہ دوبارہ کیوں پوچھ رہی ہیں؟
سشمیتا سین نے اگرچہ اعتراف کیا کہ وہ آٹو امیون ڈیزیز کا شکار رہی ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس عرصے میں کتنے سال تک اس بیماری کا سامنا کرتی رہیں؟
خیال رہے کہ آٹو امیون ڈیزیز(autoimmune disease) یا خود کار مدافعتی بیماریاں اس وقت ہوتی ہیں جب غلطی سے انسان کے اینٹی باڈیز اپنے ہی ساتھی خلیات پر انہیں دشمن سمجھ کر ان پر حملہ کرتے ہیں۔
اینٹی باڈیز انسانی خود میں پائےجانے والے وہ محافظ ہوتے ہیں جو کہ انسان کو بیماریوں سے بچاتے ہیں اور ان کی جنگ تقریبا ہر وقت بیماریوں، انفیکشنز اور وائرسز سے ہوتی رہتی ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہوتا۔