وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 سے10 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ہفتے کے آخر میں عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے آخری قسط جاری ہوجائے گی، اسٹاک مارکیٹ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، جو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں یہ مارکیٹ یہ ڈیٹ اسٹاک سے نہیں بڑھے بلکہ مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے بڑھے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام میں ہوں تو کوئی پلان بی نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ زراعت کی جی ڈی پی 5 فیصد سے بڑھ رہی ہیں اور ہمارے پاس فصلیں بھی زیادہ مقدار میں پیدا ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، معیشت میں ٹیکس کا حصہ 9 فیصد ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، توانائی کے نقصانات کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
وفاقی وزیر نے بتایا ابھی ہم جہاں ہیں وہ ایک اچھی جگہ ہے، مالیاتی ادارے کو ’لینڈر آف دا لاسٹ ریزورٹ‘ کسی وجہ سے کہا جاتا ہے، اس پروگرام نے میکرو اکنامک استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم کی۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہم نے فنڈ سے طویل مدتی پروگرام جاری کرنے کی استدعا کی کیونکہ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ ہم میکرو اکنامک استحکام کو مستقل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا ساختی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہے، اس ملک کو پالیسی کی ضرورت نہیں ہمیں کیوں اور کیا پتا ہے لیکن ہمیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں استحکم ہونے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا، اس وجہ سے تمام وزراتوں کو کہا فیا کہ سرکاری اداروں کو نجکاری کے طرف لے جائیں، ٹیکس کے دو پہلو ہیں، اس میں پہلا پالیسی اور عمل در آمد گیپ اور دوسرا ٹیکس نیٹ میں ٹیکس نا دینے والوں یا کم ٹیکس دینے والوں کو شامل کرنا، جو عمل در آمد کرنے والو پہلو ہے وہ بہت اہم ہے، عمل درآمد کے اجزا کو ہم نے صحیح کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک ہونےکے ناطے وقتی فیصلے لینا اور اس پر عمل در آمد کرنا ضروری ہے، کسی نے مجھ سے کہا کہ چیف جسٹس سے کیوں نہیں بات کرتے تو میں ان سے تب کروں گا جب معاملہ ان کا ہو لیکن یہ معاملہ ایگزیکٹو کا ہے، ہم نے ٹریبونلز سے درخواست کی ہے کہ وہ اگلے 3 سے 4 ماہ میں فیصلہ کریں اور ہم ان تریبونلز میں لوگوں کو بھی تبدیل کریں گے۔
وزیر نے بتایا کہ ہمیں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے صوبوں کی مشاورت سے چلنا پڑے گا، ہم اس سلسلے میں ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، ہم نجکاری کو تیز کرنا چاہتے ہیں، آئی ایم کے حوالے سے ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اب وہ کیا کرنے جارہے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرنے جارہے ہیں، یہ پاکستان کا پروگرام ہے، کوئی کچھ بھی ہم سے نہیں کروا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں ہمارے کافی اچھی بات چیت رہی، نئے پروگرام کے خدوخال پر بات مشن کے پاکستان پر آنے پر بات ہوگی، ہم امید کرتے ہیں کہ جون کے آخر یا جولائی میں ہم ایگریمنٹ کرلیں کے۔