شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 سے لے کر جون 2000 میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔
الجزیرہ کے مطابق جولائی 2000، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔
عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئےسڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاؤن کیا۔
جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو ”دہشت گرد“ قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔
جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے ہیں، دارالحکومت دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے کے بعد ہزاروں افراد نے مرکزی چوک میں جشن مناتے ہوئے آزادی کے نعرے لگائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شامی فوج کی کمان نے افسران کو مطلع کیا ہے کہ باغیوں کے حملے کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔
شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ دمشق ’اب اسد سے آزاد ہے‘، فوج کے دو سینئر افسران نے رائٹرز کو بتایا کہ اس سے قبل بشار الاسد اتوار کے روز دمشق سے کسی نامعلوم مقام کے لیے روانہ ہوگئے تھے کیونکہ باغیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہوگئے ہیں اور فوج کی تعیناتی کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔