تاریخ اپنے زخموں کو آسانی سے نہیں بھولتی۔وہ لمحے جب جبر نے انسانیت کا گلا گھونٹا، جب نعرے عقل پر حاوی ہو گئے، جب اقتدار کے نشے میں انسانوں کو محض ایندھن سمجھا گیا یہ سب تلخ داستانیں تاریخ کی گہرائیوں میں دفن ہو کر بھی سانس لیتی رہتی ہیں۔ یہی سانسیں کبھی کبھی شور میں بدل جاتی ہیں، اور ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ ظلم، خواہ کسی پرانے لباس میں ہو یا نئے رنگوں میں ملبوس، اپنی فطرت کبھی نہیں بدلتا۔
مسولینی کا فاشزم بھی ایک ایسا ہی خواب تھا، جو خوف کی بنیاد پر تعمیر ہوا تھا۔
آزادی، برابری، اور انسانی وقار کے خلاف ایک خوفناک بغاوت۔ مگر تاریخ نے اس خواب کو چکناچور کر دیا۔ 25 اپریل 1945 کو اٹلی کے ”لِبریزیونے” (آزادی) کا سورج دیکھا۔ ایک نئی صبح جس میں امید کی کرنیں جھلملانے لگیں۔ مسولینی کی آمریت ختم ہو گئی، اور فاشزم کو قبر میں دفن کر دیا گیا۔
مگر کیا یہ قبر ہمیشہ کے لیے بند رہی؟
نہیں۔
آج بھی کچھ آوازیں ایسی ہیں جو اس شکست کو دل سے تسلیم نہیں کرتیں۔
جو اب بھی اس ماضی کے آئینے میں اپنے چہرے ڈھونڈتی ہیں۔
جو اسی پرانے نظام کو ایک نئی شکل میں زندہ کرنا چاہتی ہیں۔
ایک ایسا ماضی جس میں طاقت کو قانون سمجھا جاتا تھا، اور اختلاف رائے کو جرم۔
ایسا ماضی جو انسان کو ایک عدد میں بدل دیتا تھا، اور سوال کرنے والے ذہنوں کو خاموش کرا دیتا تھا۔
دائیں بازو کے بعض حلقے آج بھی اس دور کی یاد کو، اس کی ”عظمت” کو، اپنے بیانیے میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی طاقت اور یکجہتی ہی قومی وقار کا راستہ ہے۔
مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ طاقت انسانیت کی قیمت پر حاصل کی گئی تھی۔ وہ یکجہتی آزادی کے گلا گھونٹنے سے پیدا ہوئی تھی۔
آج کا فاشزم ویسا بھونڈا اور ننگا نہیں جیسا مسولینی کے دور میں تھا۔
آج کا فاشزم خوشنما نعروں کے پردے میں آتا ہے۔
”قوم پہلے”، ”اپنے لوگوں کا تحفظ”، ”سرحدوں کا دفاع” یہ سب نعرے بظاہر معصوم لگتے ہیں، مگر ان کے پس منظر میں تعصب، نفرت، اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کا زہر چھپا ہوتا ہے۔
نیا فاشزم ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔
یہ سوشل میڈیا پر خوبصورت تصویروں اور دلفریب پیغامات کے ذریعے نوجوان دلوں کو لبھاتا ہے۔
یہ خوف کی سیاست کو پھیلاتا ہے خوف کہ کوئی ”دوسرا” تمہاری خوشحالی چھین لے گا، خوف کہ کوئی اجنبی تمہاری شناخت کو مٹا دے گا۔
اور جب خوف غالب آ جائے تو انسان سوال کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
تب جبر آسان ہو جاتا ہے۔
تب فاشزم بغیر کسی وردی کے، بغیر کسی توپ اور ٹینک کے، ہمارے دل و دماغ پر قبضہ جما لیتا ہے۔
ایسے وقت میں جب نئے فاشزم کے بیج بوئے جا رہے ہوں، ہمیں ایک نئی مزاحمت کی ضرورت ہے۔
ایسی مزاحمت جو صرف جلسوں اور بینروں تک محدود نہ ہو، بلکہ دلوں میں بیداری پیدا کرے۔
ایسی مزاحمت جو سوال کرنے کی جرات کو فروغ دے، جو اختلاف رائے کو جرم نہ سمجھے، بلکہ اسے جمہوریت کی روح سمجھے۔
ہمیں ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو خوف کے بجائے امید پر مبنی ہو۔
جو ”ہم بمقابلہ وہ” کی نفسیات کو توڑ کر ”ہم سب” کی کہانی لکھے۔
جو سرحدوں کے درمیان پل باندھے، دیواریں نہ کھڑی کرے۔
نئی مزاحمت صرف سیاستدانوں یا دانشوروں کا کام نہیں۔
یہ ہر اس انسان کی ذمہ داری ہے جو آزادی، برابری، اور انسانی وقار پر یقین رکھتا ہے۔
ہمیں ماضی کو یاد رکھنا ہوگا۔
نہ بطور نوستالجیا، نہ بطور افسوس، بلکہ بطور سبق۔
ہمیں ان تمام لوگوں کو یاد رکھنا ہوگا جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
ان کی قربانیوں کو فراموش کرنا نئے فاشزم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں اپنی نئی نسل کو بتانا ہوگا کہ آزادی کوئی دی گئی نعمت نہیں یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے، ایک مسلسل مزاحمت کا سفر۔
ادب، فن، موسیقی یہ سب مزاحمت کی خاموش مگر سب سے طاقتور زبانیں ہیں۔
جب گولیاں خاموش ہوتی ہیں، جب نعروں کا شور تھم جاتا ہے، تب ایک نظم، ایک تصویر، ایک نغمہ لوگوں کے دلوں میں بغاوت کے چراغ روشن کر سکتا ہے۔
ہمیں اپنی کہانیوں کے ذریعے نئے فاشزم کے چہرے کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنی نظموں میں آزادی کا خواب بونا ہوگا۔
ہمیں اپنی تصویروں میں انسانیت کی روشنی بھرنی ہوگی۔
اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، ایک ننھی سی شمع بھی اسے شکست دے سکتی ہے۔
آج بھی اگر ہم اپنے دلوں میں انسان دوستی کی شمع جلائے رکھیں،
اگر ہم اپنی باتوں میں محبت کا چراغ روشن رکھیں،
تو کوئی فاشزم، چاہے کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو، ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔
نئی مزاحمت کا آغاز دل سے ہوتا ہے۔
زبان سے ہوتا ہے۔
قلم سے ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، محبت سے ہوتا ہے۔
آئیے!ہم عہد کریں کہ ہم اس نئی مزاحمت کے سپاہی ہوں گے۔بغیر تلوار کے، بغیر نفرت کے، بغیر جبر کے صرف سچائی، محبت، اور حوصلے کے ساتھ۔کیونکہ آزادی ہمیشہ انہی کی میراث ہے جو ڈرنے کے بجائے خواب دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
