پاکستان بننے سے لے کر آج کر پاکستان مختلف مشکلات میں گھرا ہوا ہے ہر حکومت اور اس کا وزیراعظم مملک خداداد پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے اور کسی پاکستانی کو ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر شک کا شبہ رعایا کو ہوتا ہے تو ان کے کاموں کو دیکھ کر یہ رائے قائم ہوا کرتی ہے۔پاکستان کو اگر ڈیم کے تحفے دئیے تو وہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے دئیے ان کے دور حکومت میں پاکستان میں مختلف ڈیمز بنائے گئے لیکن چونکہ موصوف باقاعدہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار تک نہیں پہنچے اس لئے ان کو ایک ڈکٹیٹر کے نام سے جانا اور پہنچانا جاتا ہے اور ان کے حصول اقتدار کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جو انہوں نے باقاعدہ لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد حاصل کی ان کے کارناموں میں کئی ایک منصوبے ہیں جس میں بڑے بڑے یعنی پاکستان کیلئے ایٹمی طاقت حاصل کرنا، پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد لاہور میں،شملہ معاہدہ جس کے تحت مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) ہم سے علیحدہ ہوا اور 90ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں کو قید سے چھڑا کر پاکستان لانا، اس کے علاوہ جو ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے 1973کے آئین کا قیام اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا کارنامہ ان کے نام ہے لیکن کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بنگلہ دیش ان ہی کی بدولت دو لخت ہوا تھا۔ ان کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور ان کو پھانسی دی اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کا نفاذ کیا اور 11سال پاکستان میں حکومت کی۔ ان کے دور حکومت میں روس کا افغانستان پر حملہ کے بعد پاکستان کے دروازے افغانی لوگوں کے لئے کھل گئے اور اس دن سے لے کر آج تک افغان مہاجرین ہمارے ملک میں قیام پذیر ہیں۔ افغانی اگر پاکستانی حکومتوں کو نہیں مانتے یعنی ان کے خلاف تھے لیکن ضیاء الحق واحد شخصیت تھے جن کیلئے افغانی آج بھی دعا کرتے ہیں اور ان کو اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر نے حکومت سنبھالی جو 2یا اڑھائی سال سے زیادہ نہیں چل سکی ان کے بھی کئی منصوبے ایسے ہیں جن کو پاکستان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی،پاکستان کے مختلف گاؤں میں بجلی پہنچانا، پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی فراہم کرنا اور دیگر کئی ایک پروگرام لیکن ان کی حکومت کو بھی ختم کر دیا گیا اس کے بعد نواز شریف کا دور حکومت آیا ان کے دور حکومت میں بھی کئی کام ہوئے یعنی سب سے مشہور منصوبہ ملک میں موٹر ویز کا قیام اور دیگر ایک پروگرام، ان کے بعد پھر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت اور پھر نواز شریف کی حکومت اس کے بعد پھر پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ نے آن لیا یعنی جنرل مشرف نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو جلا وطن کی زندگی گزارنی پڑی انہی کے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین محترمہ بینظیر بھٹو اپنے وطن پاکستان واپس آئیں اور ان کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا اس کے بعد پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اورآصف علی زرداری پاکستان کے صدر اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ان کے دور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو کافی توقیت ملی اور پاکستان کے غریبوں کو براہ راست مدد کی گئی۔ اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے منشور صوبہ سرحد کو بالآخر صوبہ خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا جو زرداری صاحب کے مرہون منت ہی ہوا۔حکومت نے پانچ سال تو مکمل کئے لیکن یوسف رضا گیلانی کو بھی نا اہل کیا گیا اور ان کے بعد راجہ پرویز اشرف پاکستان کے وزیراعظم بنے اس کے بعد میاں محمد نواز شریف کو حکومت ملی جس کے بعد پاکستان میں ایک نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف 124دن کا ریکارڈ دھرنا بھی دیا اور آخر کار حکومت مکمل ہوئی لیکن نواز شریف کو ہٹا دیا گیا اور شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیراعظم بنے اس کے بعد انتخابات ہوئے اور پاکستان تحریک انصاف بالآخر22سال کی محنت کے بعد اقتدار حاصل کیا۔عمران خان نے پاکستانی عوام میں ایک شعور بیدار کیا اور ان کا بیانیہ کرپشن سے پاک پاکستان کے نعرے ”تبدیلی“ پر ان کو ووٹ دیا۔حالات کچھ یوں ہیں کہ جو وعدے وزیراعظم عمران خان نے کئے اس میں ایک بھی پورانہیں کیا، یعنی 50لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، پٹرول کی قیمت 50روپے فی لیٹر پر لانا، گیس کی قیمتوں میں کمی اور پتہ نہیں کیا کیا لیکن وہ ایک کام کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔پاکستانی عوام کا حال اب یہ ہے کہ اگر دوسری حکومتوں میں 2سال بعد چینخین مارتے لیکن موجودہ حکومت کے اقدامات کے سبب وہ 9ماہ میں ہی چینخیں مارنا شروع ہو گئے ہیں، آئے روز اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ، دوائیوں کی قیمتوں میں 300فیصد اضافہ، پٹرول 115روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا ہے، ڈالٹر 100سے 150تک پہنچ چکا ہے،گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ الغرض یہ کہ ہر شے مہنگی ہو چکی ہے۔ اور تو اور وزیراعظم نے یہ کہا ہے کہ میں پاکستان میں مدینہ جیسی ریاست کا قیام چاہتا ہوں، لیکن اس کے برعکس سود کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے، آئی ایم ایف سے سود پر قرضہ لے کر ملک کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے یعنی ہر نعرے پر وزیراعظم پاکستان یو ٹرن پہ یوٹرن لیتے رہتے ہیں اور انہوں نے خود اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ یوٹرن لینے والا انسان لیڈر ہوتا ہے۔ایک عجیب منتق ہے کہ اپنے وعدے سے مکر جانے پر وہ اپنے آپ کو لیڈر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ملک کی خاطر جو بھی وہ قدم اٹھا رہے ہیں ان کی نظر میں ہو سکتا صحیح ہو لیکن یہاں راقم الحروف یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدارا مدینہ کی ریاست کا نام نہ لیا جائے کیونکہ مدینہ کی ریاست میں سود کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن ہمارے وزیراعظم آئے روز قرضے لے رہے ہیں سود کے نام پر لہٰذا مدینہ کی ریاست کے نام کو بدنام نہ کیا جائے۔ کیونکہ سود ایک لعنت اور گالی ہے اوراسلامی ریاست میں سود ایک ممنوعہ چیز ہے۔ وزیراعظم بے شک یوٹرن لیں لیکن مدینہ کی ریاست کے قیام کا نام اگر لیتے ہیں تو سود کی لعنت سے ان کو چھٹکارا پانا پڑے گا۔