اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ نے کہا ہے کہ فوج دفاعی ادارہ ہے جس کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن سیاست میں مداخلت ہوگی تو تنقید بھی کی جائے گی اور نام بھی لیا جائے گا۔
پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم کے تحت تاریخی اور فقیدالمثال کانفرنس کے انعقاد پر پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اس کی کامیابی اور جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے جو توانائیاں صرف کی ہیں اس پر مبارک باد دیتا ہوں۔
پی ڈیم ایم کے سربراہ نے مریم نواز، نواز شریف اور پورے خاندان سے تعزیت کی اور سابق وزیراعظم کی والدہ کی مغفرت کے لیے دعا کی۔
انہوں نے کہا کہ میں اس اسٹیج سے جسٹس وقار سیٹھ اور علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر افسوس اور ان کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔تحریر جاری ہے
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے گجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں جلسہ کیا اور آج اہل پشاور اور خیبر پختونخوا کے عوام نے ریفرنڈم کیا اور عظیم الشان جلسے کے ذریعے دھاندلی کے تحت آنے والی حکومت کومسترد کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے پہلے ہی دن اعلان کیا تھا الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق کیا تھا اور وہ آواز آج عام آدمی کی آواز بن گئی اور اب پوری قوم کی متفقہ آواز ہے اور جلسوں سے حکومت اور ان کے پشتی بان بوکھلائے ہوئے ہیں لیکن آگے بڑھنا اور ان کے اقتدار کے قلعے کو فتح کرنا ہے اور انہیں یہاں سے ذلت و رسوائی کے ساتھ نکالنا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جنگ کا اعلان ہم کر چکے ہیں، اب میدان جنگ ہے اور جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے، ہم نے چیلنج کردیا ہے اور واضح طور پر کہنا چاہتا ہیں، ہمارا مؤقف واضح ہے، دھاندلی ہوئی ہے، دھاندلی کی گئی ہے، ہمیں دھاندلی کرنے والا بھی معلوم ہے اور وہ جو نامعلوم ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم فوج اور ادارے کا احترام کرتے ہیں اگر وہ ہمارا دفاعی ادارہ ہے، اگر دفاعی ادارہ تو ہماری سر آنکھوں پر لیکن اگر وہ سیاسی ادارہ بننے کی کوشش کرے گا تو پھر تنقید برداشت کرنی ہوگی، پھر یہ مت کہیں کہ ہمارا نام نہ لیا کرو، پھر تمھارا نام بھی لیا جائے گا اور پھر تم پر تنقید بھی کی جائے گی، پھر آپ کے سامنے کلمہ حق بھی کہا جائے گا، ہم آج بھی آپ کو مہلت دیتے ہیں کہ آپ ان کی پشتی بانی سے پیچھے ہٹ جائیں، دستبردار ہوجائیں اور کہہ دیں کہ یہ حکومت ہماری نہیں ہے اور آپ حکومت کے خلاف آواز ہمارے ساتھ ملائیں، پھر ہم آپ بھائی بھائی ہیں’۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ‘آپ سیاست میں کیوں آتے ہیں، اپنے دفاع سے کام رکھیں، دفاع کا کام کریں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آپ دھاندلی کریں وہ جرم نہیں، ہم دھاندلی کے خلاف احتجاج کریں تو آپ ہم سے خفا ہوتے ہیں پھر خفا نہ ہونا بلکہ برداشت کرنا لیکن بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ دو سال کے عرصے میں تم نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کردیا ہے اور جب کسی ملک کی معیشت گرتی ہے تو پھر وہ ریاست باقی نہیں رہ سکتی، ریاست کی بقا کا دار ومدار مستحکم معیشت پر ہوا کرتا ہے، جب ہم حکومت چھوڑ رہے تھے تو ہم نے بجٹ میں کہا تھا کہ آئندہ سال اس ملک کی ترقی کا تخمینہ ساڑھے 5 فیصد ہوگا اور اس سے اگلے سال ساڑھے 6 فیصد ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو حکومت ملی اور آپ کی حکومت کے پہلے سال ترقی کا تخمینہ ایک اعشاریہ 8 پر آیا اور دوسرے سال کے بجٹ میں صفر اعشاریہ 4 پر آگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسٹیٹ بینک نے تین روز پہلے اپنی رپورٹ جاری کی ہے کہ 1951 اور 1952 کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کا سالانہ بجٹ صفر اعشاریہ 4 پر آیا ہے، یعنی اگلے سال کوئی ترقی نہیں اور اس سے اگلے سال بھی کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہے پھر ہمیں کہتے ہیں معیشت کی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، یہ اشارے کہاں سے مل رہے ہیں، یہ کس چیز کے اشارے ہیں’۔
حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایک بھوکا بازار میں کھڑا ہے اور بلبلا رہا ہے، ایک آدمی گزرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ میرے پیچھے کوئی آدمی آرہا ہے شاید وہ آپ کے لیے کھانا لے آئے، اس کو کہتے ہیں اشارہ، اب اس اشارے سے کوئی فرق آیا، بات بنیادی یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، آج ہم اس قابل نہیں ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک ہم سے تعلقات قائم کرے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘وہ بھارت، جب واجپائی وزیراعظم تھا تو وہ پاکستان بس کے ذریعے آیا، لاہور میں اترا، مینار پاکستان پر کھڑا ہوا اور پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، کیا وجہ تھی پاکستان معیشت کے لحاظ سے مستحکم تھا اور وہ پاکستان کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا تھا’۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا اور ہم سے تجارت کرنا چاہتا تھا لیکن آج افغانستان آپ سے مایوس ہے اور آپ سے کوئی رابطہ کرنے کو تیار نہیں ہے، ایران آپ کے مقابلے میں اب بھارت کی لابی میں جاچکا ہے، چین کے ساتھ ہم نے 70 سال ایسی دوستی رکھی کہ ہمالیہ سے بلند، بحرالکاہل سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج ہم نے ان کی 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تباہ و برباد کردیا، امریکا کے اشارے پر اور ایک ٹرمپ نے دوسرے ٹرمپ سے کہا کہ چین کے منصوبے کو ناکام بناؤ، جس طرح امریکیوں نے وہاں کے ٹرمپ کو مسترد کردیا انشااللہ پاکستان کے عوام پاکستانی ٹرمپ کو بھی مسترد کردیں گے’۔
حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ‘سوویت یونین کیوں تباہ ہوا دفاعی لحاظ سے طاقت ور تھا لیکن معاشی لحاظ سے کمزور ہوا اور اپنا وجود کھو بیٹھا، آج پاکستان کا یہ حشر کردیا گیا ہے، آج یہ پاکستان کا گورباچوف بننا چاہتا ہے، جس طرح اس کی غلط روش اور غلط پالیسی نے سویت یونین کا خاتمہ کردیا آج یہ پاکستان کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے، عجیب بات یہ ہے کہ سیاست دانوں سے کہتا ہے کہ یہ مجھ سے این آر او چاہتے ہیں، این آر او دینے والا یہ منہ نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو حکومت سیاسی طور پر ناجائز، جس کا کوئی حق اقتدار موجود نہیں، جو کارکردگی کی بنیاد پر نااہل اور پاکستان کی معاشی قاتل ہے، آج ناکام خارجہ پالیسی پر امریکا اور چین، افغانستان اور ایران بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں، بھارت پہلے ہی دشمن ہے اور تم دوسروں کو کرپٹ کہتے ہو’۔