خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے شمالی حصے میں کار بم دھماکے میں 5 افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہوگئے۔
غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق واقعہ شمالی حلب میں پیش آیا اور حکام کی جانب سے ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق حلب کے علاقے اعزاز میں ہونے والے بم دھماکے سے متعلق وثوق سے نہیں بتایا گیا کہ کتنے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔تحریر جاری ہے
کار بم دھماکے کی ذمہ داری کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔
اس ضمن میں ترک وزیر دفاع نے کہا کہ سیرین کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جی) کے جنگجوؤں پر کیا گیا۔
واضح رہے کہ ترکی نے شام میں کردوں، جسے وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا، جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
کرد جنگجو شام میں امریکی اتحادی تھے اسی لیے ٹرمپ کے اچانک فیصلے کو واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا گیا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو کرد جنگجوؤں نے بھی ‘پیٹھ میں چھرا گونپنے’ کے مترادف قرار دیا تھا، تاہم امریکی صدر نے اس تاثر کو رد کردیا۔
ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو ‘دہشت گرد’ ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ ماہ فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔