وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ جو لوگ استعفے دینے کا کہہ رہے ہیں انہیں اپنے فیصلوں پر غور کرنا چاہیے، استعفے دینے سےقیامت نہیں آئے گی لیکن اس سے جمہوری بے چینی ضرور پھیلے گی۔
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری تو خواہش ہے فضل الرحمٰن سینیٹ کے انتخابات میں خود حصہ لیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو، اگر وہ خود حصہ لیں گے تو میرا خیال ہے کہ ان کے غصے اور بے چینی میں کمی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تحریکوں سے حکومتیں چلی جاتی ہیں تو ہم نے 126 دن عمران خان کے ساتھ دھرنا دیا لیکن حکومت نہیں گئی۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی تحریک لانگ مارچ یا عدم اعتماد سے آگے نہیں جائے گی اور سینیٹ کے انتخابات اس ملک میں جمہوریت کو مزید مضبوط کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج جو معیشت سنبھلی ہے، ملک میں قیمتیں کم ہوئی ہیں، عام لوگوں کی ضروریات کی چیزوں میں کمی آنا شروع ہوئی ہے، لہٰذا میں اپوزیشن سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو 3 سال ہونے والے ہیں، ایک سال اور ہے کیونکہ چوتھے سال کے بعد انتخابی مہم شروع ہوجاتی ہے اور انتے بڑے حلقے ہوتے ہیں کہ 3، 4 مہینے اسے کور کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ استعفے دینے کا کہہ رہے ہیں انہیں اپنے فیصلوں پر غور کرنا چاہیے، استعفے دینے سے قیامت نہیں آجائے گی لیکن اس سے جمہوری بے چینی ضرور پھیلے گی۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے، بھارت میں کسان 2 ماہ سے احتجاج کر رہا ہے، روس اور میانمار میں بھی احتجاج ہورہا ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنا مضبوط الیکٹرانک میڈیا ہے برطانیہ اور امریکا میں بھی نہیں ہے، یہاں 40 چینل چل رہے ہیں۔
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس میں اپوزیشن کو حصہ لینا چاہیے، روز ایسے موقع نہیں آتے اور جو سیاست دان موقع کھو دیتے ہیں وہ پچھتاتے ہیں، لہٰذا مئی 2006 میں دونوں جماعتوں کی جانب سے اوپن بیلٹ پر میثاق جمہوریت میں اس کا احترام کریں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم آج جو بھی فیصلہ کرے گی اس کا جواب کل لال حویلی کے باہر دوں گا تاہم ہماری کوشش ہے کہ ہم ویسا ہی رویہ رکھیں جیسا الیکشن کمیشن آنے پر رکھا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن بھی ایسا ہی خلوص و اخلاص کا مظاہرہ کرے۔
اس موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی مکالمے کرنے پڑتے ہیں، سیاست بند گلی میں داخل ہونے کا نام نہیں ہے، جمہوریت کو طاقت مکالمے سے ملتی ہے، مکالمے کا دوسرا نام جمہوریت ہے اور جو لوگ تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں اور مکالمے کے راستے بند کرتے ہیں وہ اس راستے میں ڈائینامائٹ بچھاتے ہیں۔