وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے پر سری لنکا سے ہمارے سفارتی تعلقات خراب نہیں ہوئے ہیں اور سری لنکا نے پاکستانی موقف اور بروقت کارروائی کو سراہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔
وزیر خارجہ نے لاہور میں گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سیالکوٹ کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، حکومت نے واقعے میں متاثرہ خاندان سے رابطہ کیا ہے، متاثرہ خاندان جیسے چاہے گا ویسے ہی آگے بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے وزیر خارجہ سے رابطہ ہوا ہے، سری لنکا سے ہمارے سفارتی تعلقات خراب نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے پر سب کو دکھ ہوا ہے، واقعے کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے، وزیراعظم خود اس کی نگرانی کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان 19 دسمبر کو او آئی سی کے ایک خصوصی سیشن کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جس کی بنیادی توجہ افغانستان ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں بروقت توجہ نہ دی گئی تو انسانی المیہ جنم دے سکتا ہے، اگر افغانستان کے اثاثے منجمند رہے تو معاشی بحران جنم لے سکتا ہے اور ایسی صورتحال میں یہ حالات تشویش ناک ہو سکتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی اندازوں کے مطابق 2 کروڑ 28 لاکھ افغان غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں اور 32 لاکھ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’کونسل آف فارن منسٹرز کا اجلاس 41 برس بعد منعقد ہو رہا ہے، 19 دسمبر کے اجلاس سے پہلے 18 تاریخ کو او آئی سی کے اعلی حکام پاکستان آ جائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے لیے امریکا، چین، برطانیہ، روس کے نمائندہ سمیت یورپی یونین اور یو این ایجنسی کے متعلقہ نمائندوں اور ورلڈ بینک کے نمائندوں کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے نمائندوں کو بھی بلایا جا رہا ہے، ہم افغانستان کے ایک اعلی سطحی وفد کو بھی دعوت دیں گے کہ وہ بین الاقوامی وفد کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ نظریہ اس وقت سامنے آیا جب وزیراعظم سعودی ولی عہد کی دعوت پر سعودی عرب گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان او آئی سی کا فاونڈنگ ممبر بھی ہے اس کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 15 اگست کے بعد پاکستان کے خلاف بھر پور مہم چلائی، جس کا نظریہ پاکستان پر پابندی عائد کرنا تھا لیکن پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھارت کی اس مہم کو شکست دی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر یہ باوور کروا چکا کے کہ سب کے ساتھ مشغولیت ہونی چاہیے، ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ ہم اپنے سفارتی تعلقات بڑھائیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اجلاس میں دو چیزوں کی جانب توجہ مبذول کرائیں گے، ایک انسانی علمیہ جنم لینے سے پہلے اس کو قابو کرنا اور کانفرنس کے ذریعے وسائل اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے 50 ہزار ٹن گندم افغانستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت کو افغانستان کے لیے گندم دینے میں بھی سہولت کاری دینے کا عندیہ دیا ہے، پاکستان کو اپنے افعان بھائیوں کے لیے راستہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان کو تسلیم کرنے کے معاملے کی ابھی نوبت نہیں آئی، دنیا ہمارے رویے اور قول و فعل کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہے‘۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ شب میری چین کے اہم شخصیت سے بات ہوئی اور تبادلہ خیال کیا، کچھ لوگ سی پیک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ قوتیں ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کا ہاتھ موڑنا چاہتی ہیں، اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کا نام اب نہ نکالا گیا تو پھر اس کی جانبداری پر سوال آ جائے گا‘۔