وزیراعظم شہباز شریف نے جنیوا میں منعقدہ کانفرنس کے دوران نیوز بریفنگ میں کہا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی کے لیے پاکستان 8 ارب ڈالر مقامی سطح پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن دنیا بھی اسی کے برابر حصہ ڈالے۔
جنیوا میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور بچوں سمیت 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تباہ کن سیلاب سے 8 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں، 3 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک تباہ ہوچکے ہیں، اربوں ڈالر مالیت کی کھڑی فصلیں ختم ہوگئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 20 لاکھ گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں، اپنی پوری زندگی میں اس طرح کی تباہی کبھی نہیں دیکھی، جس کی وجہ سے نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچا بلکہ جس بحران کا سامنا ہے اس چیلنج سے پاکستان اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت کے لیے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، میں مشکور ہوں کہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، عالمی بینک، یو این ڈی پی اور اے آئی آئی بی اور پوری دنیا میں دوست ممالک ہماری مدد کے لیے آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک ہم 4 کروڑ ڈالر تک خرچ کر چکے ہیں تاکہ 27 لاکھ گھرانوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکیں، جس میں عالمی بینک اور دیگر اداروں کی جانب سے فراہم کی گئی رقم شامل ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اسی طرح تقریباً 57 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک نقد کی شکل میں اور دیگر مد میں خرچ کیا گیا ہے، جو پوری دنیا سے دوستوں اور بھائیوں کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمیں انفرااسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کرنی ہے تاکہ لوگوں کو دوبارہ آباد کیا جاسکے، یہ بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ 33 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جس کی مثال نہیں ملتی اور اسی کے لیے آج یہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں کے نمائندوں، فرانسیسی صدر میکرون، ترک صدر اردوان اور دیگر عالمی رہنماؤں نے ویڈیو کے ذریعے پیغامات بھیجے اور اس کام میں ہمارے ساتھ تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان اپنے دوست ممالک اور اداروں سے مشاورت کر رہا ہے تاکہ مکمل بحالی، تعمیر نو اور مؤثر مالی حکمت عملی کے لیے جامع فریم ورک تیار کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم مقامی سطح پر 8 ارب ڈالر کے قریب جمع کرنے کے قابل ہوں گے اور اسی طرح 8 ارب ڈالر عالمی سطح پر ملیں گے اور برابر حصہ ڈالا جائے گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج 30 کروڑ یورو، 10 کروڑ ڈالر، 8 کروڑ ڈالر اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 4.2 ارب ڈالر کا اعلان کیا ہے، جو اس کانفرنس میں بڑے اعلانات ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور پاکستان کے لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، آپ نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں میزبان ملک سوئٹزرلینڈ اور متعلقہ ممالک، وزرا اور دیگر معززین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے براہ راست اس کانفرنس میں شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرتا ہوں کہ ایک، ایک پائی شفاف ترین طریقے سے خرچ کی جائے گی اور تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کا نظام بنایا گیا ہے تاکہ رقم ضرورت مند اور بے یارومددگار افراد تک پہنچے۔
ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے ڈونرز کانفرنس میں اعلان کردہ فنڈز مشترکہ اور عالمی تعاون سے شفاف طریقے سے خرچ ہوں گے، اپنی ٹیم کو واضح ہدایات دی ہیں کہ ان فنڈز کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی شفافیت ہماری پہلی ترجیح ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے جو فنڈز مہیا کیے جائیں گے وہ خود بھی اور ہم سے بھی یہ توقع کریں گے کہ ہم اس کی ایک ایک پائی کا حساب دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سارا نظام شفاف ہو، تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن ہو تاکہ حکومت پاکستان یا ڈونرز کی مرضی کے بجائے مستحقین تک فنڈز پہنچ جائیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس سیلاب سے پہلے ہی بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا تھا، مشرقی یورپ میں کشیدگی سے امپورٹڈ افراط زر کا سامنا تھا، گیس کی قیمتوں میں عالمی سطح پر بڑا اضافہ ہو چکا تھا، ایک مشکل صورت حال تھی، اس کے بعد سیلاب نے ہر چیز تباہ کر دی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس میں ہم سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ ہم اس امپورٹڈ افراط زر کا بوجھ اپنے لوگوں پر ڈالیں، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کا اضافی بوجھ ان پر ڈالیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے دوبارہ رابطہ کیا اور ان کی سخت شرائط تسلیم کیں اور تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کھڑے پانی نے روزگار تباہ کر دیا ہے، ان پر اضافی بوجھ کیسے ڈال سکتے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی قریبی رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ ہمیں ضرور گنجائش دے گا اور ایک دن ضرور آئے گا کہ ہم آئی ایم ایف کو پروگرام کے لیے حقائق اور دلائل سے قائل کر لیں گے۔