حکومت کا رمضان ریلیف پیکج ختم ہوتے ہی ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دالوں، کوکنگ آئل اور چنے کے آٹے سمیت مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کی جانب سے جاری کردہ نئی ریٹ لسٹ کے مطابق دال ماش اور دال مونگ پر دی جانے والی 10 روپے فی کلو رعایت واپس لے لی گئی ہے جبکہ چنے کی قیمت میں 20 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔
عمران خان کی سابقہ حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے مارچ میں 8 ارب 30 کروڑ روپے کے رمضان ریلیف پیکیج کی منظوری دی تھی، جس کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے 19 اشیا سبسڈی کے ساتھ فراہم کی جانی تھیں۔تحریر جاری ہے
اس وقت جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 800 روپے، چینی 70 روپے فی کلو، گھی 260 روپے فی کلو اور چنا 170 روپے فی کلو فروخت کیا جانا تھا جبکہ دالیں، کھجور، چاول، بلیک ٹی سمیت دیگر اشیا اور مسالے بھی رعایتی نرخوں پر فروخت کیے جانے تھے۔
واضح رہے کہ ادارہ شماریات پاکستان کی یکم مئی کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت پیمائش کے بعد پاکستان کی افراط زر گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے اپریل میں بڑھ کر 13.37 فیصد کے ساتھ 2 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
مارچ میں مہنگائی میں سال بہ سال بنیادوں پر 12.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہانہ بنیادوں پر 1.61 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ جنوری 2020 کے بعد کنزیوپر پرائس انڈیکس کے تحت سب سے زیادہ افراط زر ہے جب مذکورہ دورانیے میں یہ شرح 14.6 فیصد تھی۔
ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں مہنگائی میں بالترتیب 1.6 فیصد اور 1.63 فیصد اضافہ ہوا۔
خراب ہونے والی اشیائے خورونوش 29.57 فیصد اضافے کے ساتھ مہنگائی کے رجحان میں اضافے کا سبب بنیں، اس کے بعد ٹرانسپورٹ میں 28.34 فیصد اور خراب نہ ہونے والی اشیائے خورونوش میں 15.02 فیصد اضافہ ہوا۔
ادارہ شماریات کے مطابق شہری علاقوں میں مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں سالانہ 15.98 فیصد اور دیہی علاقوں میں 18.23 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افراط زر کی وجہ بیرونی اور اندرونی دونوں عوامل ہیں، بین الاقوامی اجناس کی قیمتیں بالخصوص تیل اور خوراک کی قیمتیں اہم بیرونی عناصر ہیں۔
مزید یہ کہ شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ بھی مقامی سطح پر قیمتوں کو متاثر کرتا ہے، وسیع رقم کی نقل و حرکت کو بھی ایک مفید اشاریہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ملکی قیمت کے اشاریے پر مالیاتی پالیسیوں کے اثرات کی عکاسی کرتے ہیں، پھر ان افراط زر کی پیش رفت کے حوالے سے مارکیٹ کی توقعات بھی اہم عوامل ہیں۔
غیر متوقع مدت کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے امتزاج کی وجہ سے وزارت نے ملک میں آنے والے وقتوں میں مشکل دنوں کی پیش گوئی کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ملکی اور بین الاقوامی منظرنامے تبدیل ہو رہے ہیں جو معاشی بحالی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں، دریں اثنا افراط زر اور بیرونی شعبے کے دباؤ معیشت میں میکرو اکنامک عدم توازن پیدا کر رہے ہیں۔