بھارت میں گزشتہ روز پریانکا گاندھی کی قیادت میں حکومت مخالف مظاہرے کے دوران کانگریس کے رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا جنہوں نے 5 اگست کو ‘بھارت میں جمہوریت کی موت’ کے دن کے طور پر منایا۔
رپورٹ کے مطابق 2019 میں اس روز بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی کانگریس نے مخالفت کی تھی اور بعد میں مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر مجوزہ مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب پر ملا جلا ردعمل پیش کیا تھا، تاہم گزشتہ روز کانگریس نے اپنے احتجاج میں ان معاملات کی بجائے مہنگائی، غیر منصفانہ تجارتی ٹیکسوں اور بھارتی حکومت کے آمرانہ اقدامات کو ہدف بنایا۔
احتجاج میں شامل راہول گاندھی نے کہا کہ ‘جو بھی لوگوں کے مسائل کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور آمریت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اس پر وحشیانہ حملہ کیا جاتا ہے اور اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے’۔
اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بھی کانگریس ارکان نے اپنا احتجاج درج کرایا جس کے بعد مجبوراً دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی۔تحریر جاری ہے
مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کے لیے کالے کپڑے پہن کر کانگریس کے قائدین سڑکوں پر نکل آئے، پارلیمنٹ کمپلیکس اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) ہیڈکوارٹر کے باہر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔
پولیس کی مداخلت کے دوران کانگریس رہنماؤں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور اس دوران پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج شروع کردیا گیا۔
راہول گاندھی، راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے، لوک سبھا لیڈر ادھیر رنجن چودھری، جنرل سیکریٹریز کے سی وینوگوپال اور پرینکا گاندھی سمیت سرکردہ لیڈران کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
اے آئی سی سی ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج اس وقت ڈرامائی صورت اختیار کرگیا جب پریانکا گاندھی رکاوٹوں کو پھلانگ کر احتجاج کے لیے سڑک پر بیٹھ گئیں۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کارروائی ملتوی کرنے پر مجبور کرنے کے بعد پارٹی سربراہ سونیا گاندھی سمیت کانگریس کے ارکان راشٹرپتی بھون کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے گیٹ نمبر ایک پر جمع ہوئے۔
تاہم کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کو دہلی پولیس نے وجے چوک کے قریب روک دیا اور انہیں راشٹرپتی بھون کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دیگر خواتین ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ بینر تھامے سونیا گاندھی نے مارچ میں حصہ نہیں لیا، دیگر ارکان اسمبلی کو پولیس نے وجے چوک سے حراست میں لے لیا۔