پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں واپس جانے کا آپشن موجود ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ‘لائیو ود عادل شاہزیب’ میں گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ یہ حکومت ناجاائز اور امپورٹڈ حکومت ہے، اس کے بارے میں ہمارا مؤقف واضح ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت کمزور حکومت ہے، یہ کئی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے جسے ہر ہر معاملے پر مشاورت کرنی پڑتی ہے اور خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا اس وقت ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، معاشی صورتحال خراب ہے، سیلاب کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہے، ان مسائل سے کوئی کمزور حکومت نمٹ نہیں سکتی، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نئے مینڈیٹ کے لیے انتخابات کی جانب بڑھنا چاہیے، عوام سے رجوع کرنا چاہیے اور جسے بھی مینڈیٹ ملے اسے عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت بنائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ اب سننے میں آرہا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی جگہ مفرور اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا جارہا ہے، ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ نئے انتخابات نہ ہوں۔
اس سوال پر کیا آپ نے قومی اسمبلی میں واپس جانے سے متعلق سوچ بچار کیا ہے اس پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ اور تبادلہ خیال نہیں کیا گیا، ہم صرف سمجھتے ہیں کہ اس وقت اس حکومت کا وقت ختم ہوچکا ہے، اس حکومت کا مزید اقتدار میں رہنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہا کہ آج کل جو بجلی کے بلز مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کو موصول ہو رہے ہیں کیا ادا کرسکتے ہیں، مہنگائی کی صورتحال، اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے باعث غریب آدمی کی زندگی تنگ ہو رہی ہے، ان مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت بہت کمزور ہے، بہت مجبور ہے، ان کے پاس فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ اس حکومت کے اندر حالات کو سدھارنے کی صلاحیت نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے باوجود ڈالر اوپر جا رہا ہے، روپیہ تنزلی کی جانب جا رہا ہے، دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور آپ یہاں قیمتیں بڑھا رہی ہیں، بےروزگاری بڑھ رہی ہے، کسان رو رہا ہے۔
اس سوال پر کہ اگر حکومت مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر کرے اور کہے ہم پارلیمان کے فورم پر بات چیت کے لیے تیار ہیں تو کیا آپ پارلیمنٹ میں واپس جاسکتے ہیں اس پر انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیں بلکل یہ آپشن موجود ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات وزیراعظم خود کہیں، الیکشن کے لیے ایک تاریخ کا وعدہ کریں اور بتائیں کہ اس کا فریم ورک کیا ہوگا، اس کے بعد اگر اس سلسلے میں کوئی قانون سازی کرنی ہو، کسی بل میں کوئی ترمیم و تبدیلی کرنی ہو، اس پر ہم سوچ سکتے ہیں، اس پر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہی نکتہ نظر عمران خان کا بھی ہے، میں جو کہہ رہا ہوں وہ میں پارٹی پالیسی بتا رہا ہوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ سب سے پہلے الیکشن کا اعلان کریں، ہمارے ساتھ طے کریں کہ الیکشن کب ہوں گے، اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی، اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم صاف شفاف الیکشن کے لیے کچھ انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، قانون سازی کرنا چاہتے ہیں، ہم تیار ہیں اس کے لیے، ہم اسمبلی میں اس کے لیے بلکل تیار ہیںِ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل بہت طویل نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن موجود ہے، اس پر پارٹی میں مشاورت جاری ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استعفے دے دیے جائیں جب کہ کچھ سمجھتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اس حکومت سے پریشان ہیں جب کہ حکمران اپنے اللوں تللوں میں لگے ہوئے ہیں، تمام پارٹیاں حکومت میں ہیں، وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں، ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے، سندھ میں سیلاب کے باعث بری صورتحال ہے لیکن حکومت کو کوئی پروا نہیں ہے اس لیے آئندہ انتخابات ان حکمرانوں کے خلاف ریفرینڈم ثابت ہوں گے۔