عمران خان حکومت میں چیئرمین ایف بی آر کے عہدے پر فائض رینے والے شبر زیدی نے کہا ہے کہ عمران خان کو یہ سمجھ آ گئی تھی کہ جو معیشت وہ چلا رہے ہیں، اس کی بنیاد پر وہ اگلا الیکشن نہیں جیت سکتے تھے، اگر حکومت چلتی رہتی تو پی ٹی آئی کو الیکشن میں 5 فیصد ووٹ بھی نہیں ملتا کیونکہ مدت کے اختتام تک معاشی طور پر ملک تباہ ہو چکا ہوتا۔
شبر زیدی نے جیو ٹی وی کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ریٹیلر اور آڑھتی 40فیصد ملکی معیشت کے مالک ہیں اور ان پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، ہم ان سے ٹیکس اس لیے نہیں لے سکتے کہ یہ ایک مافیا ہے اور اگر ہم ذرا بھی ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ شٹر ڈاؤن کر دیتے ہیں اور فوجی حکومت سمیت کوئی بھی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ شٹر پاور سے لڑ سکے اور اگر آپ شٹر پاور سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پاکستان کا ٹیکس نظام صحیح نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت میں میری عسکری ادارے کے ڈی جی سی کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں مجھ سمیت تاجروں کے نمائندے تھے، ان کی جرات دیکھیں کہ تاجروں کے نمائندے نے ڈی جی سی کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ میری سیل 100 روپے اور میں اس پر 50پیسے ٹیکس دیتا جو بجلی کا میٹر لیکن شبر زیدی مجھ سے 100 روپے پر 15 روپے ٹیکس مانگ رہے ہیں جو میں نہیں دوں گا، چاہے آپ کچھ ہی کیوں نہ کر لیں، اس پر ڈی جی سی صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اسے ڈیفر کریں، ہم آپ سے بعد میں بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان دنوں مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا چل رہا تھا اور عمران خان نے مجھ سے کہا کہ میں فضل الرحمٰن کے دھرنے سے بہت خوفزدہ ہوں تو تکنیکی طور پر انہوں نے مجھے ایسا نہ کرنے کا کہا۔تحریر جاری ہے
شبر زیدی نے انکشاف کیا کہ صرف کراچی کے علاقے لیاقت آباد کے بازار کا ٹیکس لاہور کے ٹیکس سے زیادہ ہے، اگر پشاور 10 روپے دیتا ہے تو لاہور 20 روپے دیتا ہے اور کراچی 50 روپے دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انجمن تاجران اور ریٹیلرز کی ایسوسی ایشن کے دو تین بڑے مسائل ہیں، یہ جب ٹیکس میں جائیں گے تو ان کا پورا کاروبار عملے کے سامنے کھل جائے گا، یہ اسمگل اشیا بیچتے ہیں، ان اشیا کو بیچ رہے ہیں جن پر ٹیکس نہیں ہے، یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا بیچ رہے ہیں، کراچی میں کئی چیزیں اسمگل شدہ ہیں، یہ کسی قسم کی دستاویزی شکل میں جانے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
انہوں نے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں ایک مارکیٹ میں سلک کا کپڑا ملتا ہے، پاکستان میں سلک کا سارا کپڑا اسمگل شدہ ملتا ہے، وہ بیچارہ ٹیکس کہاں سے دے گا جس کی تمام اشیا ہی اسمگل شدہ ہیں تو یہ مرض بہت شدید ہے اور اگر ہم نے اس کو صحیح نہیں کیا تو یہ تباہ ہو جائے گا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جہاں زرعی انکم ٹیکس کی بات ہے تو سندھ میں اس کا کوئی ڈپارٹمنٹ ہی نہیں ہے، صوبہ پنجاب میں یہ بورڈ آف ریونیو کو دیا گیا جن کو اس کی الف ب بھی نہیں آتی، کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر دے جاتے ہیں لیکن کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس کی ریکوری میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے زرعی انکم ٹیکس کے حوالے سے ہی ملتان کے ایک بڑے امیندار کو نوٹس بھیجا جس پر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک 46 رکنی وفد میرے دفتر آیا جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی بھی شامل تھے، اس ملاقات کے دوران ایک 90سال کے بزرگ سیاستدان نصراللہ دریشک نے مجھے کہا کہ تو بہت چھوٹی عمر کا آدمی ہے، یہ تیرے بس کا کام نہیں ہے تو اسے چھوڑ دے، ہم جنوبی پنجاب کے رکن قومی اسمبلی ہیں، ہمارے بغیر حکومت نہیں چل سکتی، تو ابھی بچہ ہے، میں نے بڑی حکومتیں دیکھی ہیں، تو اسے چھوڑ دے، یہ تیرا بس کا کام نہیں ہے۔
شبر زیدی نے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے کوئٹہ میں اسمگلنگ پر ہاتھ ڈالا تو میرے پاس سدرن کمانڈ کے کمانڈر آئے جنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اسے ذرا ’سلو‘ کریں کیونکہ اگر آپ اس سے سختی سے نمٹتے ہیں تو سیاسی طور پر چیزیں بگڑ جاتی ہیں، اس علاقے میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ اس سرحد سے سکھر تک جتنی بھی آبادی رہتی ہے، اس کا اسمگلنگ کے سوا کوئی روزگار نہیں ہے، اگر ہم اسمگلنگ کو بالکل ختم کر دیتے ہیں تو وہاں امن و امان اور روزگار کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ ساڑھے چار ٹن سونے کی کھپت ہے جو مارکیٹ میں نیا آتا ہے، ایک تولہ بھی امپورٹ نہیں ہوتا، یہ کہاں سے آتا ہے، یہ کون لاتا ہے، جب میں نے جیولر کے ساتھ پنگا لیا تو اس نے کہا کہ میں آپ کو ٹیکس دینے کو تیار ہوں لیکن جب میں سونا اسمگل شدہ لے کر بیچ رہا ہوں اور گولڈ کی رسید نہیں دکھا سکا تو ٹیکس کیسے دوں گا، یہی وجہ ہے کہ ریٹیلرز میں سب سے کم ٹیکس جیولرز سے آرہا ہے۔
انہوں نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ساڑھے آٹھ ٹن سالانہ گولڈ کی اسمگلنگ ہوتی تھی جس کی بنیاد پر یہ سارے مافیا بنے ہیں، منموہن سنگھ نے آ کر گولڈ کی امپورٹ کی اجازت دی تو مسئلہ حل ہو گیا، پاکستان میں ساڑھے تولہ گولڈ کی کھپت ہے اور ایک تولہ بھی باہر سے امپورٹ نہیں ہو رہا تو یہ سونا کہاں سے آرہا ہے، تو اصلاحاتی کمیشن بیکار کی باتیں ہیں، یہ پاکستانی نظام کی وہ خامیاں اور نقائص ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔
تمباکو پر لگائے گئے ٹیکس کی راہ میں حائل میں رکاوٹوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ مجھے اسد قیصر صاحب نے کہا کہ میرے فرنٹیئر کے اراکین قومی اسمبلی آپ سے ملنا چاہتے ہیں، جب میں اسمبلی کے چیمبر میں گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکس ختم کریں، میں نے کہا کہ آپ کو اس میں کیا مسئلہ ہے، صرف 500 روپے ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، ہمارے سارے اراکین قومی اسمبلی تمباکو کے کاشتکار ہیں تو ہم تمباکو پر ٹیکس نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوابی اور مردان میں سارے اراکین قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے تھے، اسد قیصر نے مجھ سے کہا کہ ان سے مل لیں، میں نے ان سے کہا کہ میں یہ 500 روپے کو صفر کر دیتا ہوں لیکن آپ مجھے اس فیکٹری کو رجسٹر کرنے دیں جہاں یہ تمباکو ابلتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، آپ ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے، پاکستان میں 30فیصد سگریٹ جعلی ہے جس کی ڈیوٹی کا ریٹ 74فیصد ہے، میں اس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ پاکستان میں مافیا حکومت چلاتے ہیں۔
اسٹیل کی صنعت کی ٹیکس چوری کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ کی ملوں پر ہاتھ ڈالا، یہ سارا اسکریپ پنجاب سے فاٹا لے کر جاتے ہیں، یہ وہاں بجلی کا بل اور ٹیکس سمیت کچھ بھی نہیں دیتے اور جمرود کے ساتھ وہاں فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، یہ وہاں سریہ بنا کر پاکستان میں بیچتے ہیں، یہ اگر سریا وہیں بیچیں تو اس کی اجازت ہے لیکن پاکستان میں بیچنے پر ان پر ٹیکس لگتا ہے جو وہ ادا نہیں کرتے۔
شبر زیدی نے کہا کہ جب میں نے ان پر ہاتھ ڈالا تو انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، فاٹا کے 20 سینیٹرز عمران خان کے پاس آ کر بیٹھ گئے کہ شبر صاحب کو روکیں لیکن میں نہیں مانا، یہ وہ چیز ہے جس پر میرا اور عمران خان کا اختلاف ہوا، حماد اظہر کا بھی یہی کام ہے تو ان کا بھی ان لوگوں کے ساتھ اس معاملے پر تصادم ہو گیا تھا اور انہوں نے مجھے سپورٹ کیا کہ یہ بند ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مجھے کہا کہ اگر تم یہ کرو گے تو مجھے وہاں کے سینیٹر نے بتایا ہے کہ اگر آپ نے ان لوگوں پر مزید دباؤ ڈالا تو ہم پی ٹی ایم(پشتون تحفظ موومنٹ) کو فنانس کردیں گے اور ہمارے لیے سیاسی عدم استحکام بہت بڑھ جائے گا، میں نے وزیر اعظم کو زندگی میں پہلی بار پریشان اس معاملے میں دیکھا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم دسمبر تک تو ڈیفالٹ نہیں کریں گے، دسمبر تک تو ہم اپنی اقساط ادا کردیں گے لیکن آگے کی صورتحال بہت پریشان کن ہے، مجھے لگتا ہے کہ آئی ایم ایف نے جو امداد ابھی دی ہے اس میں تھوڑا فیور کیا ہے، جب مارچ 2024 آئے گا اور آئی ایم ایف آپ کے ساتھ 5سال کی منصوبہ بندی کرے گا تو وہ اس وقت بتائے گا کہ ان کا کیا ارادہ ہے، مارچ میں ہمیں ایک انتہائی سخت پروگرام میں آنا ہے اور مارچ 2024 میں آئی ایم ایف ہمارے ساتھ بہت سختی سے پیش آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2024 تک پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن ڈالر بھی مستحکم نہیں ہو گا ، ڈالر 300 کے اطراف چلتا رہے گا۔
ایکسپورٹ کے حوالے سے سوال پر سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمارے برآمدات ٹیکسٹائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گرد رہے گی، ٹیکسٹائل میں ہمارے پاس اچھے معیار اور زیادہ مقدار میں کپاس دستیاب نہیں ہے، پاکستان کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل لاہور کی اسٹائل ٹیکسٹائل ہے جس کی سب سے زیادہ برآمدات ہے، وہ امپورٹڈ کپاس استعمال کرتا ہے، امپورٹڈ کاٹن پر سوت نہیں بک سکتا، تو پاکستان کی ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی جب نہ اچھے معیار کی کپاس دستیاب ہے اور نہ ہی زیادہ مقدار میں مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مستقبل امپورٹ کر کے اشیا ایکسپورٹ کرنے میں ہے، ہمیں چاہیے کہ بنگلہ دیش کی طرح کاٹن لا کر باہر بیچ دیں اور اگر یہ کرنا ہے تو صنعت کراچی میں لگانی پڑے گی، آپ اسے فیصل آباد میں نہیں لگا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ 7 یا 6اپریل 2019 کو عارف نقوی کے ہمراہ عمران خان سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ حکومت جس طرح چل رہی ہے، یہ ڈیفالٹ کی طرف جا رہی ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا تو عمران خان نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انہوں نے اسد عمر کو فون کر کے کہا کہ شبر زیدی یہ کہہ رہے ہیں تو اسد عمر نے کہا کہ یہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، اس پر عمران خان نے اسد عمر سے پوچھا کہ تم نے مجھے بتایا نہیں، جس پر اسد عمر نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کو پتا ہے اور پھر تین چار دن بعد آپ کو اسد عمر کو تبدیل کرنا پڑ گیا۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں نے عمران خان سے کہا کہ آپ کو جو تھوڑا بہت معیشت میں ساتھ لے کر چلتا تھا وہ جہانگیر ترین تھا، اس کے ساتھ آپ نے بڑا ڈیڈ لاک کیا اور شوکت ترین سے آپ نے کہا کہ مجھے سوا6 فیصد کی شرح نمو چاہیے، آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے پاکستان کو مستحکم کرنا ہے یا سوا چھ فیصد کی شرح نمو چاہیے، جب حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگلے الیکشن میں جانے کے لیے سوا چھ فیصد کی شرح نمو چاہتی ہے، اس دن انہوں نے اپنے لیے تباہی کے دروازے کھول لیے تھے، گاڑیاں اسمبل کر کے آپ کہتے ہیں کہ میری شرح نمو ہو گئی ہے تو یہ بات خان صاحب کو سمجھ آ گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو یہ سمجھ آ گئی تھی کہ جو معیشت وہ چلا رہے ہیں، اس کی بنیاد پر وہ اگلا الیکشن نہیں جیت سکتے تھے، اگر شوکت ترین کی حکومت چلتی رہتی تو پی ٹی آئی کو الیکشن میں 5 فیصد ووٹ بھی نہیں ملتا کیونکہ مدت کے اختتام تک معاشی طور پر ملک تباہ ہو چکا ہوتا اور حکومت کو مقبولیت نہیں ملتی۔
شبر زیدی نے دعویٰ کیا کہ میں نے عمران خان کو کہا کہ آپ سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھ سیاسی حل نکالیں لیکن وہ کہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا اور یہی اصل مسئلہ تھا اور اسی وجہ سے تباہی آئی، اس حد تک بات نہیں جانی چاہیے تھی لیکن اصل مسئلہ یہ یہی ہے، اگر کوئی سیاسی حقیقت ہے تو آپ کو بات کرنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ عمران خان حکومت میں تیاری سے آ رہے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا اور مجھے بہت مایوسی ہوئی، ان کے آپس میں اختلافات تھے کہ چیزیں چل نہیں پا رہی تھیں اور ابھی بھی ان کی حکومت میں آنے کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں ہے۔