نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ تقریباً 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے بجلی کی ٹارگٹڈ سبسڈیز کی حکومت یا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے حوصلہ شکنی یا کمی نہیں کی گئی۔
منگل کے روز نشر ڈان نیوز انگلش کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں دیے گئے انٹرویو کے دوران نگران وزیر اعظم سے آئی ایم ایف کو عبوری حکومت کی جانب سے سبسڈی سے متعلق دی گئی تجاویز مسترد کیے جانے سے متعلق سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں انہوں نے ٹیکس ادا کرنے والے معاشی طبقات کو سپورٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا عالمی قرض دہندہ ادارے کے ساتھ معاہدہ ہے کہ ان معاشی طبقات کو کوئی مراعات نہ دی جائیں جو ٹیکس نیٹ میں حصہ نہیں ڈالتے۔
اس کے علاوہ، ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’زارا ہٹ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت اس سمت میں مستعدی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملکی حالات کے لیے نجکاری ضروری ہے لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومتیں تقریباً 40-50 فیصد کام پہلے ہی کرچکیں،اور جب سے ہم نے اقتدار سنبھالا ہے، ہم اس سمت میں 10-20 فیصد آگے بڑھے ہیں۔
جب ان سے نجکاری کے منصوبے میں پاکستان اسٹیل ملز کو شامل کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ مخصوص کمپنیوں کے بارے میں بات نہیں کر سکتے لیکن یہ بلاشبہ نجکاری کی مجموعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حکومت ملک میں انتظامی امور، خاص طور پر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری اور رہائی سے متعلق معاملات کی ذمہ داری لیتی ہے۔
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ وسیع تر تناظر میں حالات کے مطابق قواعد و ضوابط کی تشریح کریں لیکن ریاست ان معاملات سے لا تعلق نہیں رہ سکتی، تاہم کچھ فیصلے غلط جب کہ کچھ درست ہوتے ہیں، جہاں تک موجودہ حالات کی بات ہے اس میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اس کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔