سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے عمران خان کی جانب سے 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے عمران خان کی درخواست قابل سماعت قرار دی جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا ہے جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کر تے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی بعض ترامیم کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم کردیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئیں ہیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیئے گئے کیسسز بھی بحال کردیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق بحال رکھی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے 3 رکنی بینچ کا اکثریتی فیصلہ جاری کیا اور55 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس نے خود تحریر کیا اور فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے تحریری حکم میں کہا کہ نیب ترمیمی سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق کی گئی ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، عوامی عہدے رکھنے والوں کے حوالے سے نیب قانون پر لگائی گئی حد اور 50 کروڑ کی حد ترامیم کو کالعدم کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں تاہم آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے اور ترامیم کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جابن سے دے گئے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ نیب 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجے، اس کے ساتھ تمام تحقیقات اور انکوائریز بھی بحال کی جاتی ہیں اور وہی سے عمل شروع ہوگا جہاں پر اس سے ختم کردیا گیا تھا۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم اور پہلی ترمیم کا سیکشن 8 بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔