مراکش میں گزشتہ روز آنے والے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار سے تجاوز کرگئیں، امدادی ٹیمیں ملبے میں دبے زندہ لوگوں کو بحفاظت باہر نکالنے کے لیے سرگرم رہیں۔
تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آنے والے اب تک کے سب سے طاقتور زلزلے میں کم از کم 2 ہزار 12 افراد ہلاک اور 2 ہزار 59 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثر کی حالت تشویشناک ہے۔
6.8 شد کا زلزلہ مراکش کے اسی نام کے شہر مراکش سے تقریباً 72 کلومیٹر مشرق میں آیا جس نے دیہی علاقوں کے تمام دیہات کو روند ڈالا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا کہ مراکش شہر اور آس پاس کے علاقوں میں 3 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
فوج اور ایمرجنسی سروسز دور دراز پہاڑی دیہاتوں تک پہنچنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں جہاں متاثرین کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔
زلزلے کے مرکز کے قریب امیزمیز گاؤں میں امدادی کارکنوں نے اپنے ہاتھوں سے ملبہ اٹھایا، گرے ہوئے ملبے نے تنگ گلیوں کو مسدود کر دیا، ایک ہسپتال کے باہر تقریباً 10 لاشیں کمبل میں ڈھکی پڑی تھیں جبکہ غمزدہ لواحقین قریب ہی کھڑے تھے۔
امدادی کارکن امیزمیز میں ایک عمارت کے ملبے کے اوپر کھڑے تھے، قالین کے ٹکڑے اور فرنیچر ملبے سے باہر لٹکے نظر آرہے تھے، ایک واحد کھلی ہوئی دکان کے باہر لوگوں کی لمبی قطار لگ گئی جہاں وہ سامان خریدتے نظر آئے۔
زلزلے کا مرکز الحوز صوبہ تھا جہاں سب سے زیادہ (ایک ہزار 293) اموات ہوئیں، دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ اموات (452) صوبہ تارودنت میں ہوئیں۔
حکام نے 3 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ اسرائیل، فرانس، اسپین، اٹلی اور امریکا سمیت کئی ممالک نے امداد کی پیشکش کی ہے۔
انسانی امداد اور زخمیوں کو لے جانے والی پروازوں کے لیے پڑوسی ملک الجزائر (جس کے مراکش کے ساتھ پیچیدہ تعلقات ہیں) نے مراکش کے لیے اپنی 2 سال سے بند فضائی حدود کھول دیں۔
ریڈ کراس نے خبردار کیا کہ اس زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بحالی میں برسوں لگ سکتے ہیں، تنظیم کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ حسام الشارکاوی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک یا دو ہفتے کی بات نہیں ہوگی، امدادی سرگرمیوں میں اگر سال نہیں تو کئی مہینے ضرور لگیں گے۔
شام کے وقت ٹیلی ویژن چینلز نے فضائی مناظر نشر کیے جن میں الحوز کے علاقے میں مٹی کے مکانات والے پورے پورے گاؤں مکمل طور پر تباہ ہوتے دکھائی دیے۔