گزشتہ روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ملک کے اعلی عسکری قیادت نے سیاسی رہنماوں کو بتایا کہ افغانستان سے امریکہ کی فوج کے مکمل انخلا کے بعد خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں پناہ گزین پاکستان آ سکتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عسکری قیادت نے سیاسی رہنماؤں کو بتایا ہے کہ افغانستان سے مہاجرین کی آمد پر انہیں سرحدی علاقوں تک محدود رکھا جائے گا۔ جبکے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی میں اضافہ ہوا تو پاکستان اپنی سرحد مہاجرین کے لیے نہیں کھولے گا۔اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان میں اس وقت پہلے سے 30 لاکھ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر 1980 میں سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد آئے تھے۔پاکستان کی حکومت و عسکری حکام کا اندازہ ہے کہ ہمسایہ ملک میں شورش میں اضافے یا خانہ جنگی کے نتیجے میں پانچ سے سات لاکھ پناہ گزین پاکستان آ سکتے ہیں۔ جس سے وطن عزیز کو کئی اہم مشکلات سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کے رواں ہفتے ہی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کے نتیجے میں مزید افغان پناہ گزین ہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت پر مجبور ہوں گے جس سے پاکستان میں دہشت گردی کو تقویت ملے گی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام حقائق ہمیں اس تلخ ماضی کی جانب سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں جب افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے بعد ٹقریباً دس سال تک وطن عزیز کے لاکھوں شہری دہشتگردی کا شکار ہوکر بم دمھاکوں میں شہید ہوئے اور پاکستان دنیا کا وہ مرکز کہلانے لگا جہاں پر لوگ آنے سے کتراتے تھے۔باہر ممالک کے کھلاڑیوں نے پاکستان آنا بند کردیا جس سے پاکستان کو معاشی سطح پر بھی کئی بڑے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ابھی تک ہم سہ رہے ہیں ۔لہٰذا حکومت اور ملک کے اعلی عسکری قیادت کو چاہیے کے وہ ملکی مفاد اور ملک کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کریں جس سے دوبارہ وطن عزیز کا تلخ ماضی تازہ نہ ہوسکے ۔